دہشت گردی کے خاتمے کیلئے افغان حکومت سے تعاون حاصل کریں گے، معظم جاہ انصاری

05 فروری ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افغان حکومت سے تعاون حاصل کیاجائے گا ،افغانستان کو کہیں گے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ،افغا ن مہاجرین سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی ہوگی اس کے لئے ہماری سیاسی قیادت کو افغان سیاسی قیادت سے بات کرنا ہوگی ۔ یہ کہنا تھا کہ آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری کا جو جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی کے سوالات کے جواب دے رہے تھے ۔ معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ کے پی کے سے سال 2016 میں تمام عسکریت پسندوں کو مار بھگایا گیا تھا اور 2017 تک کے پی کے میں امن آچکا تھا ،نیشنل ایکشن پلان اس وقت نیا تھا لہٰذا اس پر عملدرآمد بھی انتہائی سختی کے ساتھ ہورہا تھا ،سوات میں پرامن لوگوں کی واپسی شروع ہوگئی تھی ، جنوبی اور شمالی وزیرستان سے انخلا کرنے والے لوگ واپس آنا شروع ہوگئے تھے ۔لیکن جب 15 اگست 2021 کو افغانستان میں جنگ بندی ہوئی طالبان کی واپسی ہوئی تو وہاں پر عسکریت پسندوں کو بے روزگاری کاسامنا کرنا پڑا اور Militants کا یہ بیانیہ اوپر آگیا کہ جب ہم 48 ممالک کی اتحادی نیٹو فوج کو افغانستان سے نکال سکتے ہیں تو یہ پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتا تو اس کی ایک Effort کے طو رپر یہاں کارروائیاں شروع ہوگئیں ۔ اسی دوران یہ طے پایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ Reconciliation کرنی ہے تاہم Reconciliation کے لئے ٹی ٹی پی کی طرف سے جو مطالبات سامنے آئے وہ ایسے نہیں تھے کہ جن کو قبول کیا جائے ۔ ان کی خواہش تھی کہ فاٹا کا جو کے پی میں انضمام ہوا ہے اس کواپس کیا جائے ، اس کے علاوہ وہ اپنی رٹ کا قیام بھی چاہتے تھے ، ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ پاکستان آرمی کے جو ٹروپس فاٹا میں موجود ہیں ان کو وہاں سے باہر نکالا جائے اس کے علاوہ اور بہت ساری ناقابل قبول شرائط تھیں ۔ میزبان سلیم صافی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ Hostile Intelligence agencyاپنا ،اپنا ایجنڈا آگے لاتی رہی ہیں اور ان کی یہ رسائی لوکل افغانیوں کے صورت میں رہی ہے ۔ جو Militantsکچھ عرصہ پہلے او رحالیہ دنوں میں پکڑے گئے ہیں وہ افغانستان اور پاکستان میں لڑتے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ایک سال میں صرف دشمنی کی بنیاد پر 3000 کے قریب قتل ہوتے ہیں ، 2020 میں پولیس اہلکاروں کی 21شہادتیں ہوئیں ، 2021ء میں یہ شہادتیں بڑھ کر 54تک جا پہنچیں اور 2022ء میں ان شہادتوں کی تعداد مزید بڑھی اور 119 پر جا پہنچی اور سال 2023 کے ایک ماہ 4دن میں 112پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوچکی ہیں جو 2020 ء کی شہادتوں سے پانچ گنازیادہ ہیں اور اس سے عسکریت پسندی کا گراف اوپر جاتا نظر آرہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں آئی جی کے پی کے کا کہنا تھا کہ کے پی میں ایسا کوئی علاقہ نہیں ہے جہاں ٹی ٹی پی کی رٹ ہو اور وہاں ہم نہ جاسکتے ہوں تاہم یہ ضرور ہے کہ 8 سے 10 کے گروپ کی صورت میں یہ لوگ مختلف جگہوں پر موجود ہیں اور ان کی پورے کے پی میں 95 سے 98 کے قریب گروپس کی صورت میں تعداد موجودہیں اور ان کی تعداد 600 سے 650کے قریب بنتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امن کے لئے ہمارے مذہبی رہنما افغانستان کے مذہبی رہنماؤں سے بات کریں گے ۔ ایپکس کمیٹی میں سمت کا تعین کرلیا گیا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے ۔ اور اگر کہیں ضرورت محسوس ہوئی تو طاقتور پوزیشن سے بات کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ دھماکا خیز مواد جہاں بنتا اور استعمال ہوتا ہے اس کی ای ٹیگنگ کی جائے گی ،جبکہ پولیس اورسی ٹی ڈی کے استعداد کار کو بڑھایا جائے گا ۔ افغانستان سے اگر کوئی معلومات درکار ہوں گی تو اس کے لئے باہمی قانونی معاونت ہوگی ، یہاں بھتے کے لئے جو کالز آتی ہیں وہ افغانستان میں موجود واٹس ایپ نمبروں سے آتی ہیں ۔ اس سوال کہ عمران خان تو کہتے تھے کہ 40ہزار لوگوں کو ہم نے سیٹل کرنا تھا تاہم آپ جو تعداد بتارہے ہیں وہ تو چند ہزار کے جواب میں آئی جی کے پی کے کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ تعداد انہوں نے کس حساب سے بتائی ہوسکتا ہے کہ اس میں ان کی فیملیز کو بھی انہوں نے شامل کیا ہو کیونکہ میں جو چار ساڑھے چار ہزار کی تعداد بتارہا ہوں یہ عسکریت پسندوں کی تعداد بتارہا ہوں ، تاہم ان کے ساتھ ان کی فیملیز جن میں بیوی ، بچے ، ماں باپ ، بہن بھائی بھی ہوسکتے ہیں وہ شامل کرلیں تو تعداد 40 ہزار تک جاسکتی ہے ۔ عسکریت پسندوں کی سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں واپسی کے سوال پر آئی جی کے پی کے کا کہنا تھا کہ یہ ایک طے شدہ پالیسی تھی کہ Reconciliation کا پراسیس شروع کیا جائے اور اسی کے تحت کچھ عسکریت پسند واپس بھی آئے تاہم کچھ ایسے بھی عسکریت پسند تھے جو پاکستان میں ہی موجود تھے تاہم چھپے ہوئے تھے انہوں نے بھی واپسی شروع کردی اور یہ پراسیس اس سافٹ پالیسی کے نتیجے میں شروع ہوا تھا جسے Reconciliation کہا جاتا ہے ۔ تاہم اگست سے یہ پالیسی مستقل بنیادوں پر روک دی گئی تھی اور فوج سوات میں داخل ہوگئی تھی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی ڈیل کے تحت کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا ہے تو اس کا مجھے علم نہیں ہے ۔اس سوال کہ کابل مذاکرات کے لئے جب وفود جارہے تھے تو کیا آپ کو یا آپ کے ادارے کو آن بورڈ لیا گیا تھاکے جواب میں آئی جی خیبر پختونخواکا کہنا تھا کہ پالیسی میکنگ پولیس کا کام نہیں ہے خواہ وہ امن کے لئے ہو یا کسی علاقے میں پولیسنگ پلان ہو ، پالیسی لیول کا فیصلہ تو حکومت کرتی ہے تاہم ہم سے ان پٹ لی جاتی ہے اور ہم یہ ضرور ایڈوائز کرتے ہیں کہ پالیسی کو کس ڈائریکشن میں چلنا چاہئے ۔ ا نہوں نے کہا کہ کے پی میں جو سیکورٹی لیپس کے باعث سانحہ رونما ہو ا بطور پولیس سربراہ اس کی ذمہ داری لیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس حوالے سے اگر کوئی منسٹری لیول کی کمیٹی بنائی جائے میں اس سے پہلے ہی اپنی ذمہ داری تسلیم کرتا ہوں ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پولیس لائنز کے اندر سات کے قریب مختلف ایجنسیوں کے دفاتر ہیں اور پولیس لائنز کے اندر کوئی بھی داخلی اور خارجی سینٹرل کمانڈ نہیں تھا ، پچھلے 20 سے 40 سالوں میں فرنٹیئر ریزرور پولیس بنی جس کا کوئی ہیڈ کوارٹر تک نہیں بنایا گیا اور اس کے تمام عملے کو ایک بیرک دیدی گئی ۔اسپیشل سیکورٹی یونٹ کا دفتر بھی اسی لائنز میں موجود ہے اسی طرح سے اسکول آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دفتر بھی موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر ایجنسی کے اپنے اپنے مہمان آتے تھے اور ان کو اسی حساب سے اندر جانے کی اجازت دی جاتی تھی ۔اس کے علاوہ وہاں پولیس کے کوارٹرز بھی تھے ، ان کی فیملیز بھی تھیں۔میں سمجھتا ہوں کہ وہاں پر کوئی بائیو میٹرک سسٹم کا ہونا لازمی تھا ، جبکہ گاڑی باہر ہی کھڑی کرکے پیدل جانے کی صرف اجازت ہونا چاہئے تھی تاہم ایسا نہیں تھا ۔ اور کئی ایسی چیزیں جو ہونا چاہئے تھیں طویل عرصے سے نظر انداز ہوتی رہیں ۔آسان الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ وہاں پر اس طرح کا کوئی نظام نہیں تھا کہ ہم خود کو فول پروف محسوس کرتے ۔ پشاور سیف سیٹی کیوں نہ بن سکا کے سوال پر معظم جاہ کا کہنا تھا کہ سیف سٹی کا پہلا بلیو پرنٹ 2013ء میں بنایا گیا تھا جس کی لاگت 20 ارب روپے سامنے آئی ،تاہم فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے عملدرآمد نہ ہوسکا ۔ اس حوالے سے کے پی کے وزیراعلیٰ محمود خان کے کہنے پر ہم نے ٹینڈرز اسٹارٹ بھی کئے اور امید ہے کہ اپریل میں اس کی رپورٹ بھی ہمیں آجائے گی ۔انہوں نے کہا میں سیاستدان نہیں ریاست کا ملازمین اور صاف بتاؤں گا کہ جب ہم سے کہا گیا تو ہم نے دنوں کے حساب سے سیف سٹی کے پراسیس کو آگے بڑھایا ہے تاہم یہ واضح کردوں کہ جو 20ارب کی لاگت اس وقت سامنے آئی تھی ہم اس وقت 20ارب روپے کا پروجیکٹ نہیں کررہے ہیں بلکہ ہم ابھی صرف فیز ون شروع کررہے ہیں جو حیات آباد میں ہوگا جس کے بعد بتدریج فیز ٹو ، تھری اور فور کریں گے اور اگر ہم مستقل بنیادوں پر کام کریں گے تب دو سال لگیں گے ۔