پاکستان کا پرامن ایٹمی پروگرام

اداریہ
18 مارچ ، 2023

آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام میں ہونے والی تاخیر کو سوشل میڈیا سمیت مختلف فورموں پر پھیلائی جانے والی قیاس آ رائیوں کے ذریعے خدشات کی شکل دے کر جس طرح ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے بجا طور پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے، ریاست اس کی غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے اور یہ مکمل طور پر فول پروف،کسی بھی دباؤ سے بالاتر ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کی گولڈن جوبلی سے متعلق خصوصی اجلاس سے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ہمیں ہر حال میں قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور نیوکلیئر پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں کے یہ الفاظ پہلی مرتبہ منظرعام پر نہیں آئے۔ بارہا ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ ہرمرتبہ منفی سوچ رکھنے والے عناصر کو پاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کا پیغام ملا۔یہاں ان چیدہ چیدہ منصوبوں کا مختصراً احاطہ کیا جانا ضروری ہے جن پر اب تک خاصی پیشرفت ہوچکی ہے۔نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے سماجی اور معاشی ترقی حاصل کرنے کیلئے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی 1956 میں بنیاد رکھی گئی تھی۔اس سلسلے میں سب سے پہلے زراعت میں تحقیق و ترقی کی خاطر سندھ میں ٹنڈوجام کے مقام پر نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا۔ کراچی میں کینسر کے علاج کیلئے قائم مرکز، اسلام آباد کے نزدیک نیلور میں سائنس کے دیگر شعبوں میں تحقیق و ترقی کیلئے 1963 میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس و ٹیکنالوجی کا سنگ بنیاد، 1991 میں پاکستان اور چین کے درمیان ملک کے پہلے ایٹمی بجلی گھر کے منصوبے سے شروع ہونے والے سفر کے آغاز کے بعد آج الحمد ا للہ چشمہ کے مقام پر چار نیوکلیئر پاور پلانٹ مجموعی طور پر 1330 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کو مہیا کررہے ہیں۔ اس طرح توانائی کے حالیہ بحران میں 3500 میگاواٹ بجلی نیوکلیئر پروگرام کے تحت حاصل ہونا بہت غنیمت ہے۔پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے کئی عالمی اداروں کے ساتھ تعاون کے حوالے سے بہتر تعلقات استوار کررکھے ہیں۔ یہ جوہری توانائی ایجنسی کا بانی رکن ہے، اس کے علاوہ یورپی جوہری ادارے سرن کے ساتھ باہمی تعاون کے معاملات بخوبی استوار ہیں۔ ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوکلیئر آپریٹر کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم ہیں۔ نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے لائسنس کے تحت نیوکلیئر گریڈ کے پرامن سازوسامان اور آلات کی تیاری کاکام ہورہا ہے۔ کینسر کی مختلف اقسام کی تشخیص اور علاج کیلئے پاکستان کے طول وعرض میں 19 مراکز کام کررہے ہیں۔ ان میں خیبر پختونخوا میں پانچ، پنجاب چھ، سندھ پانچ اور اسلام آباد اور بلوچستان ایک ایک جبکہ گلگت بلتستان میں ایک سینٹر کام کررہا ہے۔ ان اداروں میں کینسر کے کل مریضوں کی 80 فیصد تعداد علاج معالجہ اور تشخیص کیلئے رجوع کرتی ہے۔ تربیت اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کسی ملک کا سرمایہ ہوتی ہے، اس ضرورت کے پیش نظر پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے زیرنگرانی کئی تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ کورونا کے خلاف بین الاقوامی تعاون کی مثال پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن اور بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے درمیان اس وقت دیکھنے کو ملی جب اس قومی ادارے نے عالمی سطح پر بھاری مالیت کا سامان فراہم کیا۔ گذشتہ دنوں صحت کے شعبے میں قومی ایٹمی توانائی کمیشن کو پہلا وینٹی لیٹر لائیو کے نام سے متعارف کرنے میں کامیابی ملی۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے جہاں بھی کام شروع کیا وہاں اردگرد کے لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ زراعت ہو، بجلی کی پیداوار یا صنعت وحرفت، ایٹمی پروگرام پاکستان کی اہم ضرورت ہے، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا متذکرہ پیغام محض بیان نہیں، 22 کروڑ عوام کی ترقی و خوشحالی اور حقوق کا تحفظ ہے۔