زمان پارک کا میدان جنگ

رؤف حسن
18 مارچ ، 2023

پاکستان کو یقینی طور پر تشدد، افراتفری اور شورش کی بھیانک کھائی میں دھکیلا جارہا ہے ۔ زمان پارک کے میدانِ جنگ میں یہ خدشہ سچ ثابت ہوتا دکھائی دیا ۔


صورت حال افسوس ناک بھی ہے اورمایوس کن بھی۔ جب ریاست ہی کسی ایسے رہنما کو ختم کرنے کے گھنائونے ارادوں کی مبینہ سرپرستی کرنے لگے جسے وہ سیاسی طور پر شکست نہیں دے سکتی تھی، تو ایسی ریاست پر فسطائیت کا رنگ گہرا ہونے لگتا ہے ۔ اور ایک مرتبہ جس نے یہ کمبل اُوڑھ لیا پھر کمبل اسے چھوڑے گا نہیں ۔ پاکستان دیوانہ وار اس راستے پر گامزن ہے جس پر خوف ناک امکانات کے ہیولے گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ اپنی تباہی کو دن دہاڑے دعوت دی جارہی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ رُک کرسوچ لیا جائے قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے اور ہم وہاں پہنچ جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ رہے ۔


ایک ایسے ملک میں جس پر زیادہ تر یا تو براہ راست فوجی قبضے کے ذریعے یا کٹھ پتلیوں کے ذریعے حکومت کی گئی جنھوں نے مقتدرہ کی نرسری میں پرورش پائی ہو ، وہاں حقیقی جمہوری سیاست کا تصور تقریباً اجنبی ہوتا ہے ۔ فرد واحد کی حکمرانی ایک معمول بن جاتی ہے۔ یکے بعد دیگر قائم ہونے والی فوجی آمریتوں کے درمیان غیر مستحکم اور بدعنوان سویلین حکومتیں بھی قائم ہوئیں۔گزشتہ پندرہ برسوں میں جمہوریت کے چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرنے والے بہت سے لوگوں کی اصلیت پر سے پردے اُٹھ گئے۔ ایک طرف وقت کا بہتا دھارا بدعنوان اور جرم زدہ حکومتوں کو نشان زد ہ کرگیا، دوسری طرف اسی دھارے سے عمران خان بھی ابھرا جس نے صاف اور شفاف حکومتی نظم ونسق چلانے کاپرچم اٹھایا ہوا تھا ۔ اُن کے ایجنڈے میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں سے اُن کی بدعنوانی کا حساب لیں گے جو انہوں نے اپنے برسوں پر محیط اقتدار کے دوران روا رکھی۔ اس آخری عزم نے خان کو طاقتور مافیاز اور کارٹلز کے ساتھ ٹکراؤ کے راستے پر ڈال دیا جو روایتی طور پر اسی سیاسی اشرافیہ کی سرپرستی کر رہے تھے ۔


اس جواز پر ان کی حکومت کو قبول نہ کیا گیا، اور اسے گرانے کے لیے تحریکیں چلائی گئیں کہ انہیں فوج نے سہولت فراہم کی تھی۔ ان مافیاز، ان کے سرپرستوں اور آقاؤں نے حکومت اور ریاستی اداروں کو موروثی بدعنوانیوں سے پاک کرنے کے خان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ عمران خان نے جو احتسابی عمل شروع کیا تھا وہ بھی خود کو ریاست سے زیادہ طاقتور سمجھنے والے حلقوں کی مداخلت کی وجہ سے عدالتوں میں مفلوج ہو کررہ گیا ۔ خان کے دور اقتدار میں جنگ چھڑ چکی تھی ۔ حالات اسی سمت اشارہ کررہے تھے ، اور مخالفین کے ناپاک ارادوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جائے گی۔


ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ اور اپنی انتخابی شکست کے خوف سے حکمراں جماعت نے آئین کو نظرانداز کرنے اور نوے دن کی مقررہ مدت میں اسمبلیوں کے انتخابات نہ کروانے کے لئے چالیں چلنی شروع کر دیں۔ لیکن عدالتوں نے مداخلت کی اور حکم دیا کہ حکومت کے تحفظات سے قطع نظر آئین کی پاسداری کی جائے اور مقررہ وقت میں انتخابات کرائے جائیں ۔


یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعد کہ خان سے سیاسی میدان میں نمٹا نہیں جا سکتا، انھیں مبینہ طور پر جسمانی طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ایک قاتلانہ حملہ اس وقت ہوا جب خان اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے اور ان کی دائیں ٹانگ میں گولیاں لگی تھیں۔ لیکن نہ وہ اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی ان کے لاکھوں حامی جو انھیں اپنا نجات دہندہ مانتے ہیں۔دریں اثنا، اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں، ان کے خلاف من گھڑت مقدمات کا اندراج شروع کر دیا گیا۔ اس وقت یہ تعداد اسّی سے زیادہ ہے۔ ان مقدمات کا مقصد صرف انھیں گرفتار کرنا نہیں تھا بلکہ مبینہ طور پر سکیورٹی سے متعلق ڈرامہ رچا کر جسمانی طور پر ختم کرنا تھاجس کے لئے انھیں اپنی تحویل میں لیا جانا تھا۔ لاہور میں زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ پر آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا جس پر پولیس اور رینجرز کے دستوں نے حملہ کیا۔ اپنے لیڈر کی حفاظت کے لئےجمع ہونے والے ہجوم پر مبینہ طور پر اندھا دھند فائرنگ کرنے کے علاوہ سفاکانہ ریاستی طاقت کا استعمال کیا۔ آنسو گیس کے شیل، ربڑ کی گولیاں، فائرنگ، واٹر کینن کا استعمال کیا، اور ہر وہ فسطائی حربہ استعمال کیا جس کے بارے میں وہ سوچ سکتے تھے کہ وہ خان کو گرفتار کرنے کے لئے اُن کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوسکیں گے۔ زمان پارک میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ سفاکانہ ریاستی طاقت کے مقابلے میں خان کے حامیوں کے پاس صرف اپنے طور بنائے گئے کچھ حربے تھے ۔ ریاست کی پوری طاقت ان کے حامیوں کے جذبے کو سرنگوں نہ کرسکی ۔و ہ خان پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہے ۔ چوبیس گھنٹے تک لڑائی جاری رہی جس میں تازہ دم پولیس اور رینجرز کے دستے مسلسل حملہ آوروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتے رہے لیکن وہ ان لوگوں کے عزم کو پست نہیں کر سکے جن کے لئے خان کی گرفتاری سرخ لکیر ہے جسے وہ کسی کو پار نہیں کرنے دیں گے۔


حکومت کو عارضی طور پر پسپا ہونا پڑا۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیر التوا فیصلے پر عمل ہوا جس کے مطابق ضمانت کی درخواست سیشن جج کو غور کے لئے واپس بھیج دی گئی۔ دریں اثنا، خان کے حامی نتائج سے قطع نظر فسطائی حملے کو روکنے کی جائے وقوعہ پرعزم و ہمت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔


مجھے خدشہ ہے کہ زمان پارک کا میدان جنگ جلد ہی دوبارہ سلگ اُٹھے گا، اور اس مرتبہ ریاست زیادہ کھلی طاقت کا استعمال کرے گی۔ اس طرح پاکستان کے انتشار اور افراتفری کی کھائی میں گرنے کی رفتار اور تیز ہوجائے گی ۔ ٹکرائو اور تصادم کے ماحول میں عقل اور معقولیت کی بات کون سنتا ہے؟