ڈاکٹر جمیل جالبی بیک وقت ، عہد ساز مورخ ، مصنف ، نقا د اور ادیب تھے، میر خلیل الرحمٰن سوسائٹی کا سیمینار

18 مارچ ، 2023

لاہور (پون ایوب) ڈاکٹر جمیل جالبی پاکستان کے ایک نامور ماہر نفسیات، نقاد، مصنف، معروف دانشور،مفکر، رائٹر، کالم نگار، محقق اور ماہر تعلیم تھے۔ میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) اور ڈاکٹر جمیل جالبی فائونڈیشن کے زیر اہتمام ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے خصوصی سیمینار بعنوان ’’بیاد ڈاکٹر جمیل جالبی‘‘ پی سی ہوٹل لاہور میں منعقد ہوا، تقریب میں تلاوت و نعت رسولؐ کی سعادت صدارتی ایوارڈ یافتہ مرغوب احمد حمدانی نے حاصل کی۔میزبانی کے فرائض چیئرمین میر خلیل الرحمان میموریل سوسائٹی واصف ناگی نے ادا کئے ۔ مقررین نے کہا ڈاکٹر جمیل جالبی کا فیض ابھی تک جاری ہے ان کا لغت کا کام ایسا ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا ، ان کی لغت باقی تمام ڈکشنریوں پر بھاری ہےاللہ تعالی نے ان کو اپنے علوم، معارف میں جو عطا کی اس کا انہوں نے فیض دنیا میں جاری کیا ،ڈاکٹر جمیل جالبی بیک وقت عہد ساز مورخ ،مصنف ،نقاد اور ادیب تھے ۔ ایسی عہد ساز شخصیت روزپیدا نہیں ہوتی ،جالبی نے تحقیق کو مغربی تحقیق کے برابر کر دیا ، جمیل جالبی کا اوڑھنا بچھونا لکھنا پڑھنا تھا۔مقررین میں سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی،وفاقی محتسب انشورنس فرزند جالبی ڈاکٹر خاور جمیل جالبی،سینئر تجزیہ کار عبد الباسط خان، سینئر صحافی سہیل وڑائچ، بریگیڈیئر غضنفر علی (ر) ،سربراہ جمیل جالبی چیئر اور دانشور پروفیسر ضیاء الحسن، کارٹونسٹ جاوید اقبال، دانشور و استاد اردو پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ناصر عباس، سابق وائس چانسلر پنجاب و سرگودھا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، ڈائریکٹر بزم اقبال اور کالمسٹ محمد منصور آفاق، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، ڈاکٹر صغریٰ صدف، پرنسپل فاطمہ جناح گرلز کالج چونا منڈی ثمینہ بھٹی شامل تھے۔ سینئر تجزیہ کارعبد الباسط کا کہنا تھا کہ ہم ان کے فن وادب کاا حاطہ نہیں کر سکتے ان کا کام بے شمار ہے اور انہوں نے اتنا کام کیا ہے کہ لوگ ان کی شخصیت سے مرعوب ہو کر یہاں کھینچے چلے آئے ہیں ہمیں اس طرح کی جدوجہد کرتے رہنا چاہئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کے فرزند ڈاکٹر خاور جمیل جالبی نے کہا کہ میں تقریب میں موجود تمام لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوںا ور مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ا نہوں نے کہا کہ ملک کے نامساعد حالات میں آپ سب کا تقریب میں شرکت کرنا بہت بڑی بات ہے جس کیلئے میں آپ سب کا شکر گزار ہوں ۔سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے صدارت کے فرائض انجام دیئے۔ انہو ں نے کہا کہ جمیل جالبی کو کم و بیش 4برس ہو گئے دنیا سے رخصت ہوئے مگر ان کا فیض ابھی تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جالبی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو ان کی تحریریں پڑھیں ان سےملاقات ہو جائے گی ، جب کوئی جمیل جالبی بن جاتا ہےتو اس کو موت نہیں آتی وہ اپنی تحریر و تحقیق کے ذریعے زندہ رہتا ہے۔ اس موقع پر معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے کہا کہ جمیل جالبی سے میری ملاقات تونہیں ہوئی لیکن ان کی مجھے جو لغت ملی ہے وہ ہر وقت میرے زیر استعمال رہتی ہے اور یہ ڈکشنری ’’لغت‘‘ باقی تمام ڈکشنریوں پر بھاری ہے۔ سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے کہا کہ جمیل جالبی کا ایک بڑاحوالہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے خانوادے کے فرد وحید تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے علوم، معارف میں جو عطا کی اس کا انہوں نے فیض رساں دنیا میں کیا۔ ان کے علوم، معارف، حوال، افکار یہ دنیا میں صدا اسی طرح روشنی و رہنمائی عطا کرتے رہیں گے ۔چیئرمین میر خلیل الرحمان میموریل سوسائٹی واصف ناگی کا کہنا تھاکہ جمیل جالبی کا اوڑھنا بچھونا بس لکھنا پڑھنا تھا اور وہ اس میں ہی خوش رہتے تھے اہلیہ کے بعد ان کے قریبی ساتھی بس لکھنا پڑھنا، کتابیں تھیں وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو ان سے ملتےرہے اور ان سے فیض بھی حاصل کرتے رہے ۔ ضیاء الحسن نے کہا کہ جالبی کی لغت کا کام ایسا ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا تاریخ ادب کے حوالے سے ہمارے پاس جتنی مختصر و طویل تواریخ ہیں ان میں جمیل جالبی کی تاریخ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمیل جالبی اور باقی تاریخوں میں بہت فرق ہے ہمیں تاریخوں سے تاریخیت کا معلوم ہو جاتا ہے مگر ادب کی روایت بس ایک کتاب میں موجود ہے اور وہ ’’تاریخ ادب و اردو‘‘ ہے جو جمیل جالبی نے لکھی ہے۔ پروفیسر ناصر عباس نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں جالبی کثیر الاجہت شخصیت تھے اس کے علاوہ وہ ادبی مورخ، نقاد، مترجم اور لغت نویس بھی تھے ان کی تاریخ نویسی تمام کاموں میں اہم تھی۔ بہت کام ہوا تاریخ نویسی میں مگر جمیل جالبی کا کام بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے اردو ادب کی تاریخ نویسی کو آزاد کرایا ۔ کالم نگار منصور آفاق نے کہا کہ جمیل جالبی اردو ادب کے بحیثیت محقق سب سے بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ جمیل جالبی کو بیسویں صدی کا محقق کہہ سکتے ہیں۔ سلیم مظہر نے کہا کہ ان کے کارناموں کی ایک لسٹ ہے ان کے نام بے شمار اعزازت و ایوارڈز ہیں۔ جالبی ایک خود پرور انسان تھے وہ چھوٹوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ بریگیڈیئر غضنفر علی (ر) نے کہا کہ جمیل جالبی ایک ایسی عہد ساز شخصیت تھے جو کسی بھی ملک میں روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ اردو ادب میں اگر جمیل جالبی کا نام نکال دیں تو ہمارے پاس بہت کم سرمایہ بچتا ہے ۔ ثمینہ بھٹی نے کہا کہ جمیل جالبی ہمہ جہت شخصیت تھے اس کے علاوہ بہترین نقاد، تحقیق نگار تھے۔ انہوںنے تحقیق کو اپنے طریقے اور کام سے زندہ کر دیا اس سے پہلے اردو ادب میں تحقیق نہ ہونے کےبرابر تھی لیکن جالبی نے تحقیق کو مغربی تحقیق کے برابر کر دیا۔