ارشد شریف قتل کیس، بہت دکھ ہے کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، چیف جسٹس

18 مارچ ، 2023

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ بہت دکھ ہے ارشد شریف کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، دفتر خارجہ 2 ممالک سے کیس میں مدد لینے میں ناکام رہا، سپریم کورٹ صحافت کے شعبہ کا بے حد احترام کرتی ہے، بنیادی انسانی حقوق کی خاطر عدالت نے از خود نوٹس لیا۔جمعہ کو سینئر صحافی ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ارشد شریف کی والدہ نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر اعتراض کردیا، ارشد شریف کی والدہ کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پر تحفظات ہیں۔ارشد شریف کی والدہ اپنے موقف کے مطابق فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر)درج کرانا چاہتی ہیں۔وکیل نے موقف اپنایا کہ قانون کے مطابق سپریم کورٹ ارشد شریف کیس کی تحقیقات کی نگرانی نہیں کرسکتی۔مرحوم ارشد شریف کی والدہ کے وکیل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے ارشد شریف کیس میں گناہ گاروں کو سزا ملے اور بے گناہ لپیٹ میں نہ آئے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم یہاں کسی سزا اور بری نہیں کررہے صرف تحقیقات میں سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔وکیل شوکت عزیز صدیقی نے دلائل دیئے کہ سپریم کورٹ شہناز بی بی کیس میں واضح کر چکی کہ عدالت کے پاس نگرانی کرنے کا اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ اس کیس کی نگرانی نہ کرے، یہ معاملہ جسٹس فار پیس کو بھجوایا جائے۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ تحقیقات کی نگرانی کر سکتی ہے۔شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لی ہے یا فیصلہ بدل گیا ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آپ اپنی آواز نیچی رکھیں کیا ہم یہ کیس نہ سنیں؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہم نے ایک نامور صحافی کے قتل پر از خود نوٹس لیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اکتوبر کو قتل ہوا عدالتی نوٹس سے پہلے آپ کہاں تھے؟ ارشد شریف ایک اہم شعبے کے اہم فرد تھے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تحقیقات کی نگرانی نہیں بلکہ اداروں کو تحقیقات میں تعاون دے رہے ہیں، ہمارا مقصد کسی کو کیس میں شامل کرنا یا تحفظ دینا نہیں۔ارشد شریف ایک صحافی اور پاکستانی شہری تھا، قتل کے اس واقعے پر ہم بھی دکھی ہوئے۔عدالت نے ازخود نوٹس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آنے کے بعد لیا، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کچھ پہلو تھے جن کی تحقیقات ضروری تھی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی کارروائی شروع ہونے پر ہی مقدمہ درج ہوا، مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کو حکومت فنڈز فراہم نہیں کر رہی تھی، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو فنڈز دلوائے اور وہ بیرون ملک گئی۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ تفتیش کی نگرانی کرنا عدالت کا اختیار ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہتے ہیں تو ازخودنوٹس ختم کر دیتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ شہید کی والدہ کو لگتا ہے کہ ہم پانچ ججز انکی مدد نہیں کر سکتے؟ سیدھا سیدھا کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کوئی کارروائی ہی نہ کرے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صحافی برادری کے خدشات اور تحفظ کے لئے ازخودنوٹس لیا گیا تھا، عدالت سوموٹو میں کسی کو سزا دینے نہیں بیٹھی، جے آئی ٹی کے کام میں سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کر رہی، عدالت صرف حکومتی اداروں کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ اتنا عرصہ کوئی قانونی کارروئی کیوں نہیں کی؟ جس پر وکیل شوکت عزیز صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ایس ایچ او تھانہ رمنا شہید کی والدہ کی درخواست پر مقدمہ درج نہیں کر رہا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی کو تحفظ دینا چاہتی ہے نہ کسی کو مجرم قرار دینا مقصد ہے، کوئی دلچسپی نہیں لے گا تو کارروائی مزید تاخیر کا شکار ہوگی، عدالت نے از خود نوٹس کی کارروئی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عدالت صحافیوں کا بہت احترام کرتی ہے، صحافی ہمیں کچھ بھی کہیں کبھی توہین عدالت کی کارروئی نہیں کی، صحافی کو قتل کر دیا گیا جو دوسروں کے لئے سبق ہو سکتا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ باہمی قانونی معاونت کے لئے تین ہفتے درکار ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تین ہفتوں بعد کیس دوبارہ سنیں گے، اس دوران بیرون ممالک سے باہمی قانونی معاونت سے متعلق پیش رفت ہوتو آگاہ کیا جائے۔بعد ازاں، سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔