سیاسی عدم استحکام اور عوام

احمد وقاص ریاض
19 مارچ ، 2023
ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی، انتشار اور لاقانونیت سے جہاں شہریوں کی زندگی کے عمومی معمولات متاثر ہو رہے ہیں وہاں ملک کے معاشی حالات بھی خراب سے خراب تر ہورہے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں اپنے مفادات، اقتدار اور مستقبل کی سیاست کیلئے ملک کی معیشت، سلامتی اور یکجہتی کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک کے غریب عوام پس کر رہ گئے ہیں۔ آٹا ، چینی، گھی، دالیں اور سبزیاں ہر گھر کی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتی ہیں مگر ان کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ، گزشتہ اور موجودہ حکومتوں کی نااہلی یا عدم توجہ کے باعث مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ اشیائے خورو نوش، بجلی، گیس، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور عوام خصوصاً نئی نسل فرسٹریشن اور مایوسی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال کے منفی اثرات ملک کی کاروباری سرگرمیوں پر بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ماسوائے چند بڑے اسٹوروں اور مخصوص دکانوں کے تمام بڑے شاپنگ سنٹرز اور ریستورانوں میں خریدار خال خال نظر آتے ہیں اور ریٹیل کاروبار کرنے والے بہ مشکل اپنے خرچے پورے کر رہے ہیں۔ درآمد کنندگان ٹیکسوں اورڈیوٹیوں میں اضافے، ڈالر کی غیر متوازن پرواز اور لیٹرز آف کریڈٹ کی بندش سے پریشان ہیں، بے شمار مینوفیکچرنگ یونٹ خام مال امپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔ صرف ایک سیکٹر صحت کا جائزہ لیا جائے تو ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ زندگی بچانے والے انجکشن ، سرجری میں استعمال ہونے والی کٹس اور دوسرے مٹیریل جیسا کہ بلڈ بیگ وغیرہ کی قلت اور سرکاری ہسپتالوں میں عدم دستیابی سے ضروری آپریشن ملتوی کرنا پڑ رہے ہیں۔ برآمد کنندگان خام مال کی کمی، پیداواری لاگت میں اضافے اور حکومت کی ناقص مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے آرڈر پورے کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے بیرونی گاہک مستحکم ماحول اور مضبوط معیشت کے حامل ملکوں سے مال منگوانا شروع ہو گئے ہیں اور غیر یقینی کی یہ فضا اگرقائم رہی تو ہماری ایکسپورٹ اور تجارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے شرح سود میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور روپیہ ڈالر اور دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم نہیں ہوپا رہا جس کی بنیادی وجہ افغانستان اور دبئی کی حوالہ مارکیٹ ہے جواسمگلنگ، ہنڈی اور ایل سی پیمنٹ کی وجہ سے ڈالر کے عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارے ایکسپوٹرز اور آئی ٹی سروسز وغیرہ فراہم کرنے والے کاروباری ادارے بھی اپنی رقوم اور منافع وطن واپس لانے کے بجائے بیرون ملک رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی بڑی وجہ ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بیل آؤٹ پیکیج پر دستخط کے بعد ملکی معیشت میں استحکام کی توقع ہے مگر جلد ہی ہمیں بیرونی ممالک کو بھاری ادائیگیاں قرض کی واپسی کی مد میں کرنی ہیں جس سے ہماری معیشت اور کرنسی دوبارہ دباؤ میں آسکتی ہے۔
ملکی سیاست میں تقسیم اور نفرت کی فضااس حد تک پھیل چکی ہے کہ پوری سوسائٹی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے کو تیار ہے۔ مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت میں بیٹھا ہو، اس وقت تک ملک کو مشکلات کے گرداب سے نہیں نکال سکتا جب تک مخالف فریق اس کی بات تحمل سے سننے اور ملک کو بچانے کے لئے آپس میں مل بیٹھنے کو تیار نہ ہو۔ پاکستان کے عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ملک اور بچوں کے مستقبل کے لئے اپنے اپنے سیاسی قائدین کی اندھا دھند تقلید کرنے کے بجائے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے میں دوسرے ممالک کی تقلید کریں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی مخالفتوں کے باوجود بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے ملکی معیشت کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم مودی نے چند برس قبل بھارت میں ڈیجیٹل انقلاب کا آغاز کیا جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے ملک میں غربت کی شرح کم ہوئی بلکہ دنیا بھر میں اسے معاشی طاقت تسلیم کیا جانے لگا۔ معمولی تعلیم یافتہ نریندر مودی نے ایک اچھی ٹیم کیساتھ ملکی اکنامک ریفارمز پر کام کیا، اسمارٹ سٹی، ایجوکیشن ریفارمز خصوصاً کمپیوٹر کی تعلیم، آن لائن لیبر ایکویٹی اور اسٹارٹ اَپ پروگرامز وغیرہ شروع کیے۔ ڈیجیٹل انقلاب میں عوام کی دلچسپی اور شمولیت نے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ بحیثیت پاکستانی ہم بھی ترقی کے زینے طے کر سکتے ہیں،اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دے سکتے ہیں مگر اس کیلئے شرط یہ ہے کہ ہمیں بے مقصد مشاغل اور سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نئے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت حاصل کرنا ہوگی ، شارٹ کٹ کے بجائے محنت اور نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا۔ ہماری اشرافیہ، سیاسی قائدین اور افسران بالا کو بھی چاہئے کہ سادگی اپناتے ہوئے اپنے پیٹ بھرنے کے بجائے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے کام کریں تاکہ عوام انھیں اقتدار سے جانے کے بعد اچھے الفاظ سے یاد کریں۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)