وہ لاہور کہیں کھو گیا

واصف ناگی
19 مارچ ، 2023
(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت سید مٹھاؒ کے مزار مبارک سے ہوتے ہوئے ہم کئی گلیوں کے ذریعے مستی گیٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ لاہور وہ لاہور بالکل نہیں جو ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا تھا ، اُن دنوںہم گورنمنٹ سینٹرل ماڈل سکول لوئر مال اور گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے، اب تو گورنمنٹ کالج لاہور بھی وہ نہیں رہا۔ اس تاریخی تعلیمی ادارے کے سربراہ بگھی میں بیٹھ کر تقریبات میں آتے ہیں۔ڈاکٹر نذیر احمد، پروفیسر اشفاق علی خان اور پروفیسر فضاء الرحمٰن جیسے قدآور دانشور اور علم دوست شخصیات اس تاریخی کالج کی سربراہ ہوا کرتی تھیں۔ کیا رکھ رکھائو، سنجیدگی اور متانت ان میں تھی۔ خیر چھوڑیں اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔ وہ لاہور کے تاریخی مکانات اور ان کے تھڑے جن پر محلے کے بزرگ، بڑھے بوڑھے بیٹھا کرتے تھے ،وہ کب کے ٹوٹ چکے ہیں۔ہمیں اس کا اندازہ آج ہوا۔ تھڑے کیا ٹوٹے اس خوبصورت شہر کی ہر اچھی روایت ٹوٹ گئی۔وہ بڑے بوڑھے بھی اب نظر نہیں آتے جو محلے کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کے رکھوالے ہوا کرتے تھے۔ وہ لاہور جہاں جو گھر محلے کے لڑکوں پر نظر رکھا کرتے تھے ،وہ ختم ہو گئے اور رات دیر سے آنے پر بزرگ پوچھا کرتے تھے۔ وہ لاہور جہاں کانوں میں اردو اور پنجابی زبان سننے کو ملا کرتی تھی۔ اب تو پشتو آ چکی ہے ، اس زمانے کے گھر امن و سکون کا مرکز ہوا کرتے تھے ان کو تو کب کا گرا کر اب ان کی جگہ اونچے اونچے پلازوں نے لے لی ہے۔ وہ محبت بھری نگاہیں جو کبھی ان گلیوں اور بازاروں میں ہم نے دیکھی تھیں آج کہیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ وہ پرخلوص لوگ جو راستہ بتانے والے کے ساتھ چل پڑتے تھےاب سب تاریخی گلیوں سے واقف ہو چکے تھے اور جن کو تھوڑا بہت پتہ تھا وہ صرف دور سے ہاتھ کے اشاروں سے بتا رہے تھے۔ آج کچھ وقت تھا ہم نے مستی گیٹ، کشمیری گیٹ اور شیرانوالہ گیٹ تینوں دیکھ ڈالے لیکن ہماری منزل چار سو سالہ قدیم لاہور تھا جو ان تاریخی بازاروں، گلیوں اور محلوں کی تہذیب و ثقافت اور روایتی کھانوں کے لئے مشہور تھے۔ آج صرف یہاں چمڑے کا یعنی جوتوں اور کپڑوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ ایک بھی پرانی چیز ہمیں نظر نہ آئی۔ ان گلیوں میں پہلے ٹھنڈک بغیر بو کے ہوتی تھی اب اس ٹھنڈک میں بو بھی شامل ہو گئی ہے اور ٹھنڈک بھی پہلی جیسی نہیں، ان تینوں دروازوں کے باہر شہر کی پرانی فصیل کے آثار تو ہیں مگر اب اس کو مرمت کرکے اس کا تاریخی حسن خراب کر دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شہر کی اس فصیل کے اندر کئی جگہ سے لوگوں نے درازے بنا کر اور فصیل کے پچھلی طرف اپنے مکانات میں قائم گوداموں کے راستے بنا لئے ہیں۔ فصیل کے اندر دروازے بنانے اور تاریخی عمارتوں کے ساتھ مکانات بنانے کی اجازت کس نے دی؟خیال رہے کہ 1975ء کے تاریخی عمارتوں کے ایکٹ میں یہ درج ہے کہ کسی بھی تاریخی عمارت، باغ، چاہے وہ سکھ، ہندو، مسلمان اور انگریز کے زمانے کا ہو اس کے دو سو فٹ کی حدود میں کوئی دیوار یا تعمیرات نہیں ہو سکتیں لیکن یہاں تو ہم تاریخی عمارتوں کے اندر ہی گھس گئے ہیں۔ کئی تاریخی عمارتوں کی اینٹوں کو اکھاڑ کر اپنے مکانات میں استعمال کر لیا ہے۔
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی اس حویلی کو حویلی دھیان سنگھ کہتا ہے تو کوئی حویلی آصف جاہ۔ اس وقت اندرون لاہور شہر میں اس سے بڑی کوئی حویلی نہیں، دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں دربار دھیان سنگھ یا حویلی دھیان سنگھ سید مٹھا، تحصیل بازار کا ذکر کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور، اورینٹل کالج اور پنجاب یونیورسٹی کی کلاسوں کا آغاز وہاں سے ہوا تھا۔ وہ خستہ حال عمارت آج بھی موجود ہے۔ دوسری جانب اس حویلی دھیان سنگھ /حویلی آصف جاہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں بھی گورنمنٹ کالج لاہور کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ خیر ہمیں تو اس بحث میں نہیں جانا،ہمیں دلچسپی تو اس تاریخی عمارت میں ہے کیونکہ اس عمارت میں پہلی مرتبہ پروفیسر راشدہ قریشی اور ہم نے مل کر شعبہ صحافت کا آغاز کیا تھا اور ہم نے یہاں دو برس تک ایم اے صحافت کی کلاسوں کو پڑھایا بھی تھا۔اس حویلی کے سامنے باغ میں بھی کئی تاریخی اور قدیم کمرے تھے جو ہم نے 1995ء تک دیکھے آج ان کمروں کی جگہ نئی عمارت بنا دی گئی ہے۔
یہ تاریخی حویلی چار سو برس قدیم ہے اور 64کنال رقبے پر مشتمل ہے۔ آج سے پچاس سال قبل اس کی حالت بہت اچھی اور بہتر تھی۔ بہت کم لاہوریوں کو پتہ ہو گا کہ یہ تاریخی حویلی کبھی سی آئی اے کے ٹارچر سیل کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ ہمیں یہاں کے کئی پرانے محلے داروں، معروف دانشور اور ڈرامہ نگار ڈاکٹر انور سجاد نے بھی بتایا تھا کہ اس حویلی میں مجرموں کو چارپائی کے ساتھ باندھ کر مارا جاتا تھا بلکہ چارپائی کو گیلا کر دیا جاتا تھا اور جب بان (وان) سکڑتا تو مجرم کے جسم کی کھال کو کھنچتا، تو درد سے اس کی آوازیں دور تک آتی تھیں۔ ڈاکٹر انور سجاد اور ان کے والد ڈاکٹر دلاور حسین کا یہاں قریب ہی کلینک بھی تھا۔ایک مدت تک محلے والے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یہاں سے سی آئی اے کا ٹارچر سیل ختم کیا جائے یہ سی آئی اے کا ٹارچر سیل ہم نے بھی دیکھا تھا جس کے ایک طرف لوہے کا دروازہ بھی تھا۔ہمیں اس کالج کی سابق پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ جبیں نے بھی 1994ء میں ایک کمرہ بلکہ تہہ خانہ دکھایا تھا اس کے متعلق انہوں نے بتایا کہ راجہ مجرموں کو اس کمرے میں سانپوں اور بچھوئوں کے آگے پھینک دیا کرتا تھا پھر ایک مخصوص جالی (جو آج بھی لگی ہوئی ہے) سے اس مجرم کو ملنے والی اذیت کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ (جاری ہے)