ہر انقلاب کا ایک ردِانقلاب ہوتا ہے جس کے آگے بندباندھنے کے لئے ایک سرگرم اور فعال انقلابی قیادت کا میدان میں ہونا ضروری ہے۔ یہ خالصتاً بائیں بازو کی اصطلاح ہونے کے باوجودکسی تفریق کےبغیر سیاست کے ہر رنگ اور ہر انداز کا احاطہ کرتی ہے کیوں کہ کسی سیاسی جماعت کی کامیابی کے لئے اس کے کارکنوں کی مربوط بنیادوں پر سیاسی تربیت یہ ثابت کرتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کی عوام میں بنیادیں مضبوط ہیں یا کمزور؟ہر وہ سیاسی جماعت میدان میں بری طرح پٹ جاتی ہے جس کے سیاسی ارکان سیاسی و سماجی شعور نہ رکھتے ہوں۔ یہ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی، نواز لیگ سمیت ہر سیاسی جماعت کا المیہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس وقت ملک کے کامیاب ترین رہنما، جنہیں اہالیانِ وطن پیار سے کپتان کہتے ہیں، روز عوام کو بھاشن دینے کے بجائے وارڈ کی سطح پراپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کا اہتمام کریں اور یہ تربیت ڈنڈا بردار فورس یا پیٹرول بم پھینکنے کی نہ ہو بلکہ ان کارکنوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنا مطمحٔ نظر ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کے کارکن ایک طویل عرصہ تک اس سیاسی تربیت کا حصہ رہے جس کے باعث پیپلز پارٹی آج بھی اس باب میں دیگر سیاسی جماعتوں سے آگے نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے2008سے 2013کے دور کو ہی دیکھ لیجئے ، کیا کوئی سیاسی قیدی تھا؟ کیا صحافیوں کو قید و بند کی سزائوں سے گزارا گیا اور اس وقت ملک کے صدر آصف علی زرداری تھے جن پر کرپشن کا الزام تو کبھی ثابت نہ ہوسکا مگروہ ساڑھے گیارہ سال کی جیل کاٹ چکے تھے، ان کی بارہا گرفتاری پر بھی کبھی ملک میں وہ سیاسی ہیجان پیدا نہیں ہوا جو ان دنوں ہم وطنِ عزیز میں دیکھ رہے ہیں، اور آصف علی زرداری ہی کیا، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت پارٹی کی سینئر قیادت جیل یاترا کر چکی ہے۔ جیل جانا بھی سیاسی کارکنوں کی تربیت کا ایک اہم حصہ ہے مگرکپتان تو جیل کا نام سن کر ہی ’’بدک‘‘ جاتے ہیں، ان کی پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی گزشتہ دنوں اپنی دس روزہ اسیری پر بات کر رہے تھے تو درویش کی آنکھیں حقیقت میں آبدیدہ ہوگئیں کیوں کہ جیل میں ان کے پاس پہننے کے لئے کپڑوں کے صرف دو جوڑے تھے اور وہ اپنی بنیان خود دھوتے تھے۔ یہ ہے وہ تربیت جس کے باعث ملتان کا ایک مخدوم وزیراعظم بن گیا اور دوسرا وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لئے ہی گزشتہ چالیس برسوں سے ’’کھجل ‘‘ ہو رہا ہے۔
مخدوم صاحب ہی کیا، ان کی پارٹی کے بیش تر رہنمائوں کے ساتھ دورانِ اسیری جو کچھ ہوا، وہ’’لائقِ بیاں‘‘ نہیںمگر ان سب کی کہانی کا پلاٹ ایک سا اور کمزور سا ہے۔ سابق وفاقی وزیرِداخلہ شیخ رشید اگرچہ پاکستان تحریکِ انصاف میں نہیں ، وہ بھی مگر چوہدری پرویزالٰہی کی طرح عمران خان کو اپنا رہنما مان چکے ہیں جو ان قوتوں کے چہیتے ہیں جنہیں کپتان صبح شام کوسنے دیتے ہیں اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔
یہ کہا جائے کہ عمران خان جدید سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ وہ کھلاڑی ہیں مگر سیاست دان آج تک نہ بن سکے اور لیڈر ہونا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔ موضوع تھا،قومی سیاست: انقلاب اور ردِ انقلاب تو عمران خان نے ملکی سیاست میں گالم گلوچ، تقسیم اور ذہنی دیوالیہ پن کا جو کلچر متعارف کرایا ہے، اس کی کوئی مثال تلاشنا آسان نہیں۔یہی معاملہ ان کی جماعت کے رہنمائوں، کارکنوں کے علاوہ ان لوگوں کو بھی درپیش ہے جو عمران خان کو خلوصِ دل سے اپنا ہیرو اور قوم کا مسیحا مان رہے ہیں، جن میں بڑی تعداد بیرونِ ملک مقیم ہےاور اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنا پاسپورٹ سرنڈر کرکے ان ملکوں کی قومیت حاصل کر چکے ہیں مگر یہ ہزاروں میل دور وطن کی محبت میں ’’اتائولے‘‘ ہو رہے ہیں۔ درویش کے دور کے ایک عزیز ایک دور میں پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے، چند دن جیل بھی کاٹی، ضیا الحق کے دور میں کسی طرح ان سے ملاقات ہو گئی اور ان کے ساتھ پورٹریٹ سائز تصویر اتار لی گئی ، چند برس بعد کسی سےکہلوا کر اپنا انٹرویو کروایا اور اس میں جنرل ضیا کے ساتھ کھنچی اپنی تصویر بھی شائع کرنے کے لئے دے دی۔ ان دنوں عمران خان کی حمایت میں صبح شام رطب اللسان ہیں، ان موصوف کے پرویز رشید ایسے اصول پسند سیاست دان کی ویڈیوز پر تو بہت ’’ہاسے‘‘ نکلے مگر عمران خان کی آڈیوز ان کے بقول ہمیشہ ’’جعلی‘‘ہوتی ہیں۔ جناب،اس موضوع پر پھر کبھی بات ہو گی کہ پاکستانی diaspora کے ساتھ یہ نفسیاتی مسئلہ کیوں ہے؟ نان انڈین ریزیڈنٹ (این آر آئی )اگر بیرونی معاشروں میں رَچ بس سکتے ہیں، ان ملکوں کے طور اطوار اپنا سکتے ہیں تو پاکستانی وہاں بھی قومی سیاست کا علم ہی بلند کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بات انقلاب سے ردِانقلاب کی ہو رہی تھی تو ایک مودبانہ سی گزارش ہے کہ کپتان چار ماہ کے دھرنے سے کچھ حاصل نہ کر سکے ، اس کے سواکہ انہوں نےریحام خان سے ایک اور شادی کرلی جو ان کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوئی ۔ خیال رہے کہ وہ مقتدر قوتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ میدان میں اُترے تھے۔ وہ انقلاب لا سکتے تھےمگر سانحہ آرمی پبلک اسکول کو جواز بنا کر ناکام و نامراد واپس لوٹے۔ کپتان انقلاب کیوں نہ لا سکے؟ وہ اس کی ذمہ داری سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر عائد کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک کپتان اوسط درجے کی ٹیم کے ساتھ بھی کام چلا سکتا ہے۔ اس وقت تو موصوف جنرل باجوہ کی شان میں قصیدے پڑھا کرتے تھے اور ہم ایسے لکھنے والے تنقید کرتے تو عتاب کا نشانہ بنتے۔ وہ رہنمائوں کی ریکارڈنگز کو جواز فراہم کیا کرتے تھے مگر آج یہ سلسلہ روکنے کے لئے عدالتوں سے مدد حاصل کر رہے ہیں۔ انقلاب لانے کے لئے رہنما کے کردار کی پختگی بنیادی اہمیت رکھتی ہے، کپتان کیا یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ بنی گالہ والے گھر سے پہلے اسلام آباد میں ان کے گھر کا کرایہ کون اور کیوں ادا کر رہا تھا؟ کپتان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی۔ دعویٰ ہے مگر مان لیتے ہیں، تاہم ، اس میں بھی شبہ نہیں کہ ان کی تقسیم کی سیاست نے ملک کو کرپشن سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اور یہ المیہ ہی ہے کہ بے نظیر بھٹو ایسی مدبر سیاست دان کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے ایک ایسے ’’انقلابی‘‘ کے لئے راہ ہموار کی جو اب ’’حقیقی آزادی‘‘ کا مطالبہ کر رہا ہے، درویش کا یہ دعویٰ بنا دلیل نہیں کہ بی بی زندہ ہوتیں تو عمران خان آج بھی میانوالی کی ایک نشست حاصل کرنے کے لئے عائلہ ملک سے رابطے میں ہوتے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)
مزید خبریں
-
ملکی معیشت بیک وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جنہیں ایک ساتھ حل کرنا ناگزیر ہے۔معیشت کے ضمن میں ہم ہمیشہ اس کوتاہی...
-
ماضی کا مورخ ’’طرز انصاف‘‘ کی کیا تاریخ لکھے گا؟ کیا یہ لکھے گا کہ عدل کا یہ قلعہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے...
-
اپنے اپنے نظریات، عقیدے، قومیت اور مذہبی رواداری سے رہنے کا سبھی کوحق ہے۔ مگر کچھ اس قماش کے لوگ بھی ہوتے ہیں...
-
ہمارا پیارا وطن مختلف اہم شعبوں اور تمام انسانی سرگرمیوں میں ترقی اور خوشحالی کے ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے...
-
ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کےبعد بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ بعض ماہرین شماریات اسے بلامبالغہ...
-
پاکستان کے قیام سے اب تک وطن عزیز معاشی خوشحالی اور اپنے عوام کو ریلیف دینے کیلئےکوشاں ہے گزشتہ 75سال میں ہر...
-
جمہوری حکومت کےاختیارات کے داعی ،معیشت کیلئے آکسیجن کا درجہ رکھنے والے،غریبوں کےحقیقی مسیحا،ترقیاتی کاموں...
-
وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کے نظام کا خاتمہ اور مافیاز کو لگام ڈالنا از حد ضروری ہے۔ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ...