1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے مفتی محمود کی قیادت میں ملک گیر تحریک چلائی جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی جس کے باعث وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کی قیادت کے درمیان مذاکرات کی میز سجی اورآزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے ہو گیا لیکن جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر جمہوریت کی بساط پلٹ دی اور پھر ملک پر 11سال تک آمریت کی سیاہ رات مسلط کر دی ۔اس وقت اگرچہ ایسی صورتِ حال نہیں ۔ 50ہزار سیاسی کارکنوں نے گرفتاریاں دیں اور نہ ہی ساڑھے تین سو سیاسی کارکن مارے گئے لیکن سیاسی جماعتوں میں 1977 سے ملتی جلتی کشیدگی پائی جاتی ہے،خدا نخواستہ کسی بھی وقت خون خرابہ ہو سکتا ہے ۔پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان’’اسپیکنگ ٹرمز ‘‘ ہیں اور دونوں فریق ہی مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔ کل تک عمران خان اپوزیشن کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کہہ کر کسی بھی مسئلے پر مذاکرات کرنے کیلئے تیار نہ تھے، آج پی ڈی ایم عمران خان سے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کیلئے مذاکرات نہیں کر رہی جب کہ عمران خان انتخابات کی تاریخ حاصل کرنےکیلئےاسٹیبلشمنٹ اور حکومت سےمنت سماجت پر اتر آئے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی تمام کام کاج چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ عمران خان کی گرفتاری پر مرکوز کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت تاحال انہیں ’’سرکاری مہمان‘‘نہیںبنا سکی۔عمران خان نے عدالت کی طرف سے دی گئی مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا اور توشہ خانہ کیس میں پیش نہ ہونے پر ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا گیا جس کی تکمیل کیلئے اسلام آباد پولیس نے زمان پارک کو گھیرے رکھا۔پہلے عمران خان نے گرفتاری دینے سے انکار کر دیاتھااب انہوں نے غالباً ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطالبے پر’’ہار ‘‘مان لی ہےلہٰذا ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہونے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ حکومت اور عمران خان کے درمیان مذاکرات کی میز سجانے والا کوئی نہیں ۔ مولانا فضل الرحمان سے پریس کانفرنس میں ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ’’ پی ڈی ایم اور عمران خان کے درمیان مذکرات کی راہ میں کیا رکاوٹ حائل ہے ؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ’’ پی ڈی ایم مذاکرات پریقین رکھتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ آج کے سیاست دانوں میں کوئی مفتی محمود ہے اور نہ ہی مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو۔ ‘‘انہوں نے عمران خان کے جیل جانے سے نہ ڈرنے کے دعوے کے بارے میں طنزیہ انداز میں کہا کہ ’’ عمران خان میں جیل کے مصائب برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں۔ سیاست دان کبھی جیل یاترا سے اتنا نہیں گھبراتا جتنا وہ بھاگ رہا ہے، وہ اس حوالے سے انتہائی ڈرپوک سیاست دان ہے۔‘‘ سرکاری ریکارڈ کے مطابق عمران خان کے خلاف 34مقدمات درج ہیں جب کہ خود عمران خان کادعویٰ ہے کہ ان کے خلاف مقدمات کی تعداد80تک پہنچ گئی ہے ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے طور پر مصالحت کی ناکام کوشش کر چکے ہیں ۔ صدر علوی نےعمران خان سے کئی ملاقاتیںکیں، جب کہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحق ڈار بھی ایوان صدر کے کئی چکر لگا چکے ہیں لیکن عمران خان کی عام انتخابات کرانے کی تاریخ دینے کی ضد کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔ غالباًتین سال سے کچھ عرصہ زائد کی بات ہے میری عمران خان سے وزیر اعظم ہائوس میں ملاقات ہوئی تو میں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ چو مکھی لڑائی لڑنے کی بجائے سب سے پہلے اپوزیشن کے ساتھ لڑائی میں سیز فائر کر دیں تو ان کے اقتدارکیلئے تمام خطرات ختم ہو جائیں گے لیکن انہوں نے میری تجویز کو حقارت سے مسترد کر دیا اور کہا کہ’’میں چوروں اور ڈاکوئوں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ ‘‘ اس وقت ان کا اقتدار نصف النہار پر تھاجس کے باعث ان کو مصالحت اور مذاکرات کی بات ناگوار گزرتی تھی۔ میں آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہوں ’’عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے میں جہاں دیگر عوامل کا عمل دخل ہے وہاں ان کے سیاسی مخالفین سے معاندانہ طرز عمل نے بھی ان کو اکٹھا کرنے میں بنیادی کر دار ادا کیا۔نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان تو پہلے ہی اکٹھے تھے لیکن آصف علی زرداری ، اختر مینگل ، خالد مگسی اور ایم کیو ایم کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑا کرنے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے ۔عمران خان نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو پھر پوری اپوزیشن نے متحد ہو کر ’’ناممکن ‘‘ کو’’ ممکن ‘‘بنا دیا۔گزشتہ ایک سال کے دوران عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کرنےکیلئے ہزار جتن کر چکے ہیں لیکن کو ئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ کبھی وہ منت سماجت کرنے پر اترآتے ہیں، کبھی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خان نے مقتدرہ سے لڑائی مول لے لی ہے اگرچہ وہ کسی کا نام نہیں لیتے لیکن انہوں نے کہا ہے،’’ میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ سب ایک شخص کے حکم پر ہو رہا ہے۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ مقتدرہ کو دھمکیاںبھی دے رہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان تو کہتے ہیں کہ اب کوئی مفتی محمود ہے اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹولیکن میں اس میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ آج کوئی مفتی محمود ہے اور نہ ہی نوابزادہ نصر اللہ خان ۔اس وقت ان کا واسطہ عمران خان سے پڑا ہے جو ہر قیمت پر دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کروانا چاہتے ہیں لیکن انتخابی شیڈول کے اعلان کے باوجود انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ کالم کی آخری سطور لکھنے تک ، ،عمران خان نے بھی عدالت کے سامنےپیش ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آخری خبریں آنے تک’’زمان پارک ‘‘ میں سیاسی میلہ لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد جہاندیدہ خاتون ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’کپتان ‘‘کب تک ریاست کی طاقت کا مقابلہ کرتے ہیں ؟
ملکی معیشت بیک وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جنہیں ایک ساتھ حل کرنا ناگزیر ہے۔معیشت کے ضمن میں ہم ہمیشہ اس کوتاہی...
ماضی کا مورخ ’’طرز انصاف‘‘ کی کیا تاریخ لکھے گا؟ کیا یہ لکھے گا کہ عدل کا یہ قلعہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے...
اپنے اپنے نظریات، عقیدے، قومیت اور مذہبی رواداری سے رہنے کا سبھی کوحق ہے۔ مگر کچھ اس قماش کے لوگ بھی ہوتے ہیں...
ہمارا پیارا وطن مختلف اہم شعبوں اور تمام انسانی سرگرمیوں میں ترقی اور خوشحالی کے ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے...
ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کےبعد بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ بعض ماہرین شماریات اسے بلامبالغہ...
پاکستان کے قیام سے اب تک وطن عزیز معاشی خوشحالی اور اپنے عوام کو ریلیف دینے کیلئےکوشاں ہے گزشتہ 75سال میں ہر...
جمہوری حکومت کےاختیارات کے داعی ،معیشت کیلئے آکسیجن کا درجہ رکھنے والے،غریبوں کےحقیقی مسیحا،ترقیاتی کاموں...
وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کے نظام کا خاتمہ اور مافیاز کو لگام ڈالنا از حد ضروری ہے۔ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ...