زمان پارک کی تلخی میں دبی چنگاری اور جذبات سے نکلنے والے شعلوں کو ہر کوئی اپنا رنگ، اپنا درجۂ حرارت اور اپنے معنی دے رہا ہے۔ کسی محفل میں کراچی والے بھائی کی بے باکی اور دلیری کے تذکرے ہیں اور کسی بزم میں جہاد کے درجات اور خیالات کا بول بالا ہے۔ کوئی زمان پارک میں چائنہ کو بند کر رہا ہے، کوئی زمان پارک سے امریکہ کو نکال رہا ہے۔ لگتا ہے زمانہ اس زمان پارک میں آ کر اٹک سا گیا ہے۔ سیاست کا کھیل اس نہج پر آ پہنچا کہ کپتان کا ایک پرستار لَو لَو یو کرتا مَنوں مٹی تلے چلا گیا اور اس کی ماں کی سسکیوں اور باپ کی آہ و بکا کو سب نے اپنے اپنے مطالب دیے یہ سوچے بغیر کہ انسانی حقوق اور ’’اشرافی حقوق‘‘ کو الگ الگ رکھنا انسانیت کا سبق ہے نہ جمہوریت کابلکہ انسانی حقوق زنجیروں میں بندھے ہیں اور سولی پر چڑھے ہیں اور اشرافی حقوق اشرفیوں کی حفاظت میں۔ اہلِ نظر جانتے ہیں اب کے دور میں ڈالر میں تُلنا اشرفیوں میں تُلنے کے برابر ہے۔ لیکن اہلِ دل کیا کریں کہ یہاں ہر کوئی جمہوریت کا ساتھی ہونے کے بجائے وحشتوں کا ساتھی بننے کو ترجیح دینے کے درپے ہے! ایسے میں نہ جانے ہمارا دھیان کیوں پاکستان کھپے کی جانب چلا گیا۔
زرداری پولیٹکل سائنس کی راکٹ سائنس کی جانب آنے سے پہلے ایک خوش فہمی کا تذکرہ کرلوں، خیال تھا بےنظیربھٹو کی سیاست کے بعد ، اور دیگر خواتین کے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ایسا لگنے لگا تھا کہ سیاست شائستگی کی شاہراہ ہر چل نکلے گی، اور شیخ رشید جیسی رکاوٹوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی ، بیگم محمد علی جوہر ، بیگم نصرت بھٹو ، بیگم نسیم ولی خان کے بعد بے نظیر بھٹو کا سیاست میں آنا تاریخ پاکستان میں کوئی نیا تو نہ تھا مگر چیلنج تو بہرحال تھا۔ خیر، جدوجہد کے مقابل شائستگی کے عناصر نہ ملنے کے مترادف تھے۔ پھر سوچا جنرل مشرف کی سیاست سے خواتین کیلئے دریچے مزید کھل گئے ہیں اب جلسہ گاہ سے پارلیمان تک میں روایتی بہو، بیٹی اور ماں بہن کے تقدس کی فضاؤں کے در وا ہوں گے مگر بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا۔ اب جو زمانہ چل رہا ہے، اس میں تو عمرانی سیاست کے طرزِ تکلم نے ہم جیسے بے ضرر لکھنے والوں کو بھی زہر آلود ، بلکہ زنگ آلود کر دیا ہے۔ مریم نواز تک اس عہد حاضر میں مجبور ہوئیں کہ فرنٹ فٹ پر کھیلیں کیونکہ سیاست کرنے کے بجائے سیاست کھیلنے کا جو چلن عام ہوا ہے، نہیں معلوم یہ کھیل کہاں جا کر تھمے! بہرحال خواتین بھی اپنی اِن پُٹ دیں! سیاسی جذبات کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں آصف علی زرداری سے التجا کو من چاہا کہ، کھل جا سم سم ! کہ جب زرداری ایک پہیلی یا ’’زرداری سیاست خوابیدہ ہو چلی‘‘ کی بازگشت کے بعد کوئی حرکت یا ولاسٹی عمل میں آئیگی؟ مصلحتوں کے باب کہاں بند ہیں اور مفاہمتوں کا راستہ کہاں کھو گیا ؟ سیاست کا جو عنصر مفاہمت اور مصالحت سے منہ موڑ لے وہ سیاسی رانگ نمبر ہوا کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ زرداری سیاست ہمیشہ مقتدر کے خنجر کی نوک پر رہی ، کچھ کردہ ناکردہ گناہوں کا جھومر بناکر ہمیشہ میڈیا کے ماتھے پر آویزاں رہا۔ ان سب باتوں کے باوجود جسے لیڈر کہلانا ہے اسے بند گلی سے راستہ بنانا ہے، زرداری صاحب سندھ اور بلوچستان کے راستے ہموار کرتے چلے جا رہے ہیں مگر کےپی اور پنجاب میں کوئی تنظیمی، سیاسی یا مفاہمتی دال گلتی نظر نہیں آ رہی۔ وجہ یہ کہ پنجاب کے پی میں ان کی ٹیم کہیں کسر نفسی کی بیماری میں مبتلا ہے تو کہیں احساسِ برتری کی دلیل میں پھنسی ہوئی ہے سو ایسے میں زرداری صاحب کا کوئی جادو کیا چلے؟ ایک بات طے ہے ،جب تک زرداری صاحب حیات ہیں انہی کاڈائیلاگ اور انہی کی سیاست کو کسوٹی پر رکھا جائے گا، بلاول بھٹو زرداری تما تر خوبیوں اور محنت کے باوجود کھیل کے اس زمانے میں پیپلزپارٹی کا آل راؤنڈر نائب کپتان ہی رہے گا۔ اس زمانوی اور ’’زمانی‘‘ سیاست میں زرداری صاحب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، یہ دو لوگوں کی وزیری و مشیری یا فقط وزارتِ خارجہ کی پہریداری کا معاملہ نہیں جمہوری نگہبانی کا مسئلہ ہے۔ عمران خان لاکھ بار فرمائیں کہ کسی سے ملنا نہیں، کسی کے ساتھ بیٹھنا نہیں وہ اپنے کارکنان کو دینےکیلئےمحض ایک دھوکا ہے ورنہ کیا وہ نہیں جانتے کسی کے ساتھ بیٹھنے اور ملنے ہی سے اسے اقتدار ملا تھا اور نہ بیٹھنے سے چِھنا ہے!
ہمارا انصاف کا نظام کیا، تحریک انصاف کیا، پی ڈی ایم کیا اور کیا قوت بخش اور راحت بخش مقتدر سبھی اس وقت بند گلی میں ہیں۔ پی ڈی ایم کہتی ہے عمران اور انتظامیہ و عدلیہ کی سرد جنگ اور گرما گرمی ہے، پنجاب میں نگران حکومت ہے، ہم نہیں۔ عادل الگ پنچائتی لگ رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل کا عندیہ دے رہی ہے، عمران خان سیکورٹی اور گارنٹی کے طلبگار ہیں، غیر جانبدار تجزیہ کار کہتے ہیں خان کو لَک لائین کے ساتھ میچورٹی لائین چاہئے، تو ایسے میں راکٹ سائنس والا سائنسدان ہی گرداب سے نکالنے کا کلیہ اور فارمولہ دے سکتا ہے، کیونکہ جمہوریت کھپے اور پارلیمان کھپے کے سنگ سنگ الیکشن کھپے کی آواز اور بازگشت آصف علی زرداری کے لب پر اور دماغ میں آنی اور لانی اشد ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے گلشن کا کاروبار چلے ورنہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی باپ دادا سے مسلسل پارلیمانی ہیں، ایک دفعہ اپنے حلقہ سے کیا ہارے اضطراب میں دھنس گئے حالانکہ شریفوں نے انہیں لاہور سے پارلیمان میں پہنچا بھی دیا ، پھر بھی بے قراری ہے اور کسی نئے فورم سے مسائل حل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ کسی نے کہہ دیا ہوگا عباسی آپ کی بزنس ایمپائر فلک بوس ہوچکی آپ عروج پر ہیں پارلیمان اور مہربان چھوڑ کر مقامِ اعراف پر آجائیں سو اس لیول کے لوگ بھی بہکے بہکے سے ہیں سو زرداری صاحب ہی کو کہنا ہوگا کہ، سائیں،کوئی مفاہمت کا کارڈ آپ کو بھی کھیلنا بنتا ہے ورنہ کیا فائدہ آپ کی پولیٹکل راکٹ سائنس کا؟
مزید خبریں
-
ملکی معیشت بیک وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جنہیں ایک ساتھ حل کرنا ناگزیر ہے۔معیشت کے ضمن میں ہم ہمیشہ اس کوتاہی...
-
ماضی کا مورخ ’’طرز انصاف‘‘ کی کیا تاریخ لکھے گا؟ کیا یہ لکھے گا کہ عدل کا یہ قلعہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے...
-
اپنے اپنے نظریات، عقیدے، قومیت اور مذہبی رواداری سے رہنے کا سبھی کوحق ہے۔ مگر کچھ اس قماش کے لوگ بھی ہوتے ہیں...
-
ہمارا پیارا وطن مختلف اہم شعبوں اور تمام انسانی سرگرمیوں میں ترقی اور خوشحالی کے ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے...
-
ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کےبعد بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ بعض ماہرین شماریات اسے بلامبالغہ...
-
پاکستان کے قیام سے اب تک وطن عزیز معاشی خوشحالی اور اپنے عوام کو ریلیف دینے کیلئےکوشاں ہے گزشتہ 75سال میں ہر...
-
جمہوری حکومت کےاختیارات کے داعی ،معیشت کیلئے آکسیجن کا درجہ رکھنے والے،غریبوں کےحقیقی مسیحا،ترقیاتی کاموں...
-
وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کے نظام کا خاتمہ اور مافیاز کو لگام ڈالنا از حد ضروری ہے۔ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ...