پی ڈی ایم والے جب اقتدار میں آئے تھے تو حالات سے بخوبی آگاہ تھے، انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد بھی بہت بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ ملک کے معاشی حالات بہتر بنائیں گے اورعوام کو ریلیف بھی فراہم کریں گے ، مگر دوراقتدار میں ان کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ، ملک کے معاشی حالات بہتر کیے جاسکے نہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لائی جاسکی بلکہ پی ڈی ایم حکومت کے آنے کے بعد سے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔ملک کے مرکزی بینک نے شرح سود میں تین فیصد اضافے کا اعلان بھی کردیا ہے چنانچہ یہ شرح اب سترہ فیصد سے بڑھ کر بیس فیصد تک جا پہنچی ہے۔بینک نے شرح سود میں تازہ اضافہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ نئی شرح مہنگائی کو درمیانی مدت کے پانچ سے سات فیصد تخمینے کے اندر رکھنے کی ضامن ہوگی، اسی طرح جنرل سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد کرنے،ایکسائز ڈیوتی بڑھانے ، سبسڈیز میں کمی ، توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل اور کفایت شعاری کی مہم سمیت حکومت کے حالیہ اقدامات کے سبب بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کی توقع بھی ظاہر کی گئی ۔
زمینی حقائق مذکورہ دعووں کی تائید نہیں کرتے ،حقیقت بہرحال یہی ہے کہ مہنگائی میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ،گرانی کا طوفان کسی طرح قابو میں آتا دکھائی نہیں دیتا ۔ شرح سود، کے حوالے سے ہم اس وقت پورے ایشیا میں پہلے نمبر پر ہیں،خطے کے دیگر تمام ممالک ہم سے بہت پیچھے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں شرح سود اس وقت صرف چھ فیصد، بھارت میں ساڑھے چھ فیصد اور نیپال میں ساڑھے آٹھ فیصد ہے۔ سری لنکا میں شرح سود ساڑھے چودہ فیصد ہے۔ شرح سود میں اضافے سے صنعت و تجارت اور زراعت سمیت تمام شعبوں میں پیداواری لاگت میں جو اضافہ ہوگا وہ یقیناً قیمتوں میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالا تھا تو ڈالرکی قیمت 242روپے تھی اور انہوں نے اپنی ہی جماعت کے پیش رو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو شدیدتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ڈالر کی اصل قیمت دوسوروپے سے کم ہے چنانچہ ان کے منصب سنبھالنے کے بعد ڈالر دو سو سے نیچے تو نہ آسکا مگر اس کی قیمت پہلے سے قدرے کم ضرورہوئی جس پر حکمران مسلم لیگ کے قائدین بغلیں بجاتے رہےمگراب صورت حال یہ ہے کہ صرف اسحقٰ ڈار صاحب کی وزارت کے دور میں ڈالر کی قیمت پچپن روپے بڑھ چکی ہے ۔ ملک کی تاریخ میں روپے کی اس قدر بے توقیری پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
قومی خزانے کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے شدید دبائو کا سامنا ہے جب کہ قرضوں کی ادائیگی اور جاری کھاتے کا خسارہ پورا کرنے کیلئے گیارہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر چین سے قرض ملنے پرکچھ بہتر ہوئے ہے۔پاکستان میں فروری میں مہنگائی کی شرح 31.6فیصد پر پہنچ گئی جو ملک میں 50سال کی بلند ترین سطح ہے، گرانی کی وجہ اشیائے خورو نوش اور ٹرانسپورٹ کے کرایوںمیں بڑاضافہ ہے۔ زرعی صارفین کو اب بجلی 13روپے کی بجائے 16روپے 60پیسے فی یونٹ کے حساب سے ملے گی ۔حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر بھی لیوی میں اضافہ کر دیا ہے۔ شرح سود میں تین فیصد اضافے سے مقامی قرضوں میں ایک ہزارارب روپے کا مزید اضافہ ہو جائے گا اگر ایک سال تک 19سے 20فیصد تک شرح سود برقرار رہتی ہے تو حکومت صرف مقامی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں پر سات ہزار ارب روپے سالانہ ادا کرے گی۔
ملک کو بحرانوں سے نکالنا اور ترقی و کامرانی کی ڈگر پر چلانا سیاسی قیادت کا کام ہے اور اس میں ناکامی پر اسے مورد الزام ٹھہرایابھی جاسکتا ہے اور کامیابی پر اس کی ستائش بھی کی جاسکتی ہے ۔ اس وقت پاکستان کو شدید سیاسی و معاشی بحران کا سامنا ہے ،بنیادی طور پر سیاسی بحران ہی معاشی بحران کی بنیاد ہے جس کی وجہ سے ملک ایک گرداب میں پھنسا ہواہے۔ماضی میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کی بات کی تھی کہ ملکی معیشت کیلئے سیاست دانوں کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیے اور معیشت کی درستی کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تو صحیح معنوں میں یہ وقت ہے جس کیلئے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر معاشی حالت کو درست کرنے کیلئے غور کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے بے تحاشا ٹیکس عائد کیے جانے کے بعد اور شرح سود بڑھانے سے کاروبار بری طرح تباہ ہونے کا اندیشہ ہے جس سے کاروباری حلقوں سمیت عام شہری شدید مشکلات سے دوچار ہو جائیں گے ،جب کہ مہنگائی سے اشرافیہ اور مراعات یافتہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے صرف اور صرف مڈل کلاس طبقہ متاثر ہورہاہے۔
اس بڑھتی مہنگائی کے سیلاب میں عوام کے پاس ہمت و برداشت کاجو تھوڑا بہت اثاثہ باقی بچا تھا، وہ بھی ڈوب رہا ہے، عوام خود کو بچانے کیلئے ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور ہیں ۔ اس مجبوری میں اب وہ سڑکوں پر بھی نکل آئیں تو بعید از قیاس نہیں ۔خدا نخواستہ ،اگر ایک بار عوام سڑکوں پر نکل آئے تو پھر حالات کو قابو میں لانا کسی کے بس میں نہ ہو گا ۔
مزید خبریں
-
ملکی معیشت بیک وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جنہیں ایک ساتھ حل کرنا ناگزیر ہے۔معیشت کے ضمن میں ہم ہمیشہ اس کوتاہی...
-
ماضی کا مورخ ’’طرز انصاف‘‘ کی کیا تاریخ لکھے گا؟ کیا یہ لکھے گا کہ عدل کا یہ قلعہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے...
-
اپنے اپنے نظریات، عقیدے، قومیت اور مذہبی رواداری سے رہنے کا سبھی کوحق ہے۔ مگر کچھ اس قماش کے لوگ بھی ہوتے ہیں...
-
ہمارا پیارا وطن مختلف اہم شعبوں اور تمام انسانی سرگرمیوں میں ترقی اور خوشحالی کے ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے...
-
ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کےبعد بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ بعض ماہرین شماریات اسے بلامبالغہ...
-
پاکستان کے قیام سے اب تک وطن عزیز معاشی خوشحالی اور اپنے عوام کو ریلیف دینے کیلئےکوشاں ہے گزشتہ 75سال میں ہر...
-
جمہوری حکومت کےاختیارات کے داعی ،معیشت کیلئے آکسیجن کا درجہ رکھنے والے،غریبوں کےحقیقی مسیحا،ترقیاتی کاموں...
-
وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کے نظام کا خاتمہ اور مافیاز کو لگام ڈالنا از حد ضروری ہے۔ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ...