قرار داد! قول وقراراورعہد وپیمان کو کہتے ہیں، وعدے کو کہا جاتا ہے کہ ہم کسی بات کا عہد لیتے یا کرتے ہوئے سچے جذبوں کو گواہ بناتے ہیں۔کسی بھی مباحثے کے بعد تجویز دیتے ہوئے کوئی ثالث کسی فیصلے پہ پہنچتے ہوئے معززین،عمائدین کی گواہی میں کسی سے عہد لیتا ہے لیکن قرارداد پاکستان کہ جس کی اساس کلمۂ طیبہ ہے ، کیلئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہ ہوئے اور ایسی مقدس ،مبارک اور عظیم ترین گواہی میں عہد و پیماں کی پختگی کاکیا کہئے کہ پھر وعدہ جسم و جاں سے عزیز ہوجاتا ہے، مال و متاع سے مقدم سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ برصغیر بڑی قربانیوں کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی مخلص قیادت میں اس قرار داد تک پہنچے تھے ،جسے قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے۔ قرار دادپاکستان کے پسِ پردہ صرف تقسیم ہند کی کارفرمائی نہیں تھی بلکہ یہ کئی صدیوں کا تاریخی سفر تھا۔ پاکستان اگرچہ قائد اعظمؒ نے مختصر سی کامیاب منظم تحریک چلا کر حاصل کرلیا لیکن یہ جدوجہد بہت پرانی تھی کیونکہ مسلمان تقریباً گیارہ بارہ سو برس قبل برصغیر میں فاتح کی حیثیت سے وارد ہوئے اور اپنے دور اقتدار میں بھائی چارے برداشت اوررواداری کی بہترین مثالیں قائم کرتے ہوئےرہ رہے تھے۔لیکن انگریز تجارت کی آڑ میں آئے اور مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی گروہ بندی اورباہمی منافرت سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر قابض ہو گئے۔
قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ”ہم جانتے ہیں کہ پچھلی گیارہ بارہ صدیوں کی تاریخ ہم میں اتحاد پیدا کرنے کی ناکامیاں بیان کرتی ہے۔اس مدت میں ہندوستان، ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہوتا رہا ہےاور اس وقت جو مصنوعی اتحاد نظر آتا ہے وہ صرف برطانوی اقتدار کا نتیجہ ہے۔‘‘ قائد اعظمؒ کی نگاہ بینا اس بات کا ادراک کرچکی تھی کہ صدیوں کی مسافت سے تھکا ہوا مسلمان مسافر اپنی منزل کے نشان ڈھونڈ رہا ہے اورمنزل پاکستان ہی تھی۔
مسلمانوں کو ہندوستان سے مٹانے کی سازش بام عروج پر تھی تب ہی توقائد اعظمؒ نے مسلم قومیت کی بنیاد کے بارے میں برملا ارشاد فرمایاتھاکہ ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد نہ وطن ہے‘ نہ نسل ہے۔بلکہ کلمۂ توحید ہے ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا‘‘ہندوستان میں انگریز سرکار کے آنے کے بعد مسلمانوں کا شخصی تعارف طوفانوں میں گھر چکا تھامتحارب اکثریت سے مسلمانوں کی مال و جان محفوظ نہیں تھی،مسلمانوں کی ثقافت، تہذیب و تاریخ خطرے میںپڑ چکی تھی۔ ہندو اور انگریزمسلمانوں کی جان کے درپے تھے کہ اس قرارداد نے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی۔ آس کی ایسی شمع روشن ہوگئی کہ جسے وقت کی تیز آندھیاں بھی بجھا نہ سکیں۔ ہر نظر میں صرف پاکستان کے نام کے جگنو چمکنے لگے ہر ذہن پاک سر زمین کی سوچ سے روشن ہونے لگا ،ہر دل پاکستان کے تصور سے مہکنے لگا ہر سانس میں منزل مراد کی خوشبو آنے لگی۔ اس لئے جذبوں کے تلاطم میں ہندوؤں اور انگریزوں کی ساری سازشیں بہہ گئیں کیونکہ پاکستان محض ایک الگ خطہ نہیں بلکہ اسلامی تجربہ گاہ ہے اسی لئے قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کامطالبہ کچھ اور نہیں بلکہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ ایک طرف ہندو دوسری جانب انگریز سرکارلیکن تمام تر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود پاکستان کی قرارداد پیش کی گئی جس کی نگہبانی اللہ کریم نے کی جس کے محافظ عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تحریک میں علامہ محمداقبالؒ کا مکمل فکری ساتھ رہا، علامہ اقبالؒ مسلمانوں کی منتشر سوچوں کو یکجا کرنے ،اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی تہذیب کی حفاظت کیلئے پوری طرح سرگرم رہے، 1928کو مسلمانوں نے نہرو رپورٹ اور 1929 کو ہندوؤں نے قائد اعظمؒ کے چودہ نکات کو مسترد کر دیا تھا،پھر 1930 کو خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ ’’اسلام کی تاریخ سے جو سبق میں نے سیکھا ہے ، وہ یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا۔ اگر اپنی نگاہیں پھر سے اسلام پر مرکوز کر دی جائیں تو آپ کی بکھری ہوئی قوتیں ازسرنو بیدار اور یکجا ہوجائیں گی اس طرح مسلمان تباہی وبربادی اور ہلاکت انگیزیوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔“ علامہ محمد اقبالؒ نے واضح طور پر ہندوستان کے اندر آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی خواہشات کا اظہار کیا تب ہی تو قرار داد پاکستان 23مارچ 1940کے بعد قائد اعظم ؒنے فرمایا کہ آج ہم نے وہ کردیا جس کا مطالبہ علامہ اقبالؒ نے کیا تھا۔
23مارچ 1940ء کو یہ قرار داد منٹو پارک لاہور میں مولوی فضل الحق نے پیش کی جسکی تائیدوحمایت یوپی،بہار،مدراس،بمبئی سے لے کر سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سرکردہ رہنماؤں نے کی اور اس قرارداد کے پیش ہونے کے سات برس بعد پاکستان معرض وجود میں آگیا جو دنیا کی تاریخ میں غیر معمولی مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی ہمہ گیر شخصیت کا اعتراف کیا اور اسٹینلے والپرٹ جیسا مؤرخ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ چند افراد تاریخ کا رُخ موڑ دیتے ہیں۔ دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنیوالے ان سے بھی کم ہوتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا ہوجس نے نئی مملکت کی تخلیق کا کارنامہ انجام دیا ہواور قائد اعظم ؒ نے یہ کر کے دکھایا، دنیا نے ہمارے قائد کی شخصیت، عظمت اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے لیکن ہم قائد کے افکار سے رہنمائی لینے سے گریزاں ہیں۔ 23مارچ 1940کا یہ تاریخی دن جس قرار داد کا امین ہے ہمیں بھی اس کا پاس کرنا ہوگا وگرنہ پاکستان کے ساتھ ہمارے کچھ عاقبت نااندیشوں نے جو سلوک روا رکھا ہوا ہے خدانخواستہ پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے، یہ طے ہےکہ پاکستان ہمیشہ رہنے کیلئے بنا ہے لیکن ہمیں اپنے رویوں میں مثبت اور انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
مزید خبریں
-
ملکی معیشت بیک وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جنہیں ایک ساتھ حل کرنا ناگزیر ہے۔معیشت کے ضمن میں ہم ہمیشہ اس کوتاہی...
-
ماضی کا مورخ ’’طرز انصاف‘‘ کی کیا تاریخ لکھے گا؟ کیا یہ لکھے گا کہ عدل کا یہ قلعہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے...
-
اپنے اپنے نظریات، عقیدے، قومیت اور مذہبی رواداری سے رہنے کا سبھی کوحق ہے۔ مگر کچھ اس قماش کے لوگ بھی ہوتے ہیں...
-
ہمارا پیارا وطن مختلف اہم شعبوں اور تمام انسانی سرگرمیوں میں ترقی اور خوشحالی کے ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے...
-
ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کےبعد بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ بعض ماہرین شماریات اسے بلامبالغہ...
-
پاکستان کے قیام سے اب تک وطن عزیز معاشی خوشحالی اور اپنے عوام کو ریلیف دینے کیلئےکوشاں ہے گزشتہ 75سال میں ہر...
-
جمہوری حکومت کےاختیارات کے داعی ،معیشت کیلئے آکسیجن کا درجہ رکھنے والے،غریبوں کےحقیقی مسیحا،ترقیاتی کاموں...
-
وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کے نظام کا خاتمہ اور مافیاز کو لگام ڈالنا از حد ضروری ہے۔ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ...