عمران خان کو عدالت میں ملزم کی حیثیت سے پیش ہونا تھا،رانا ثناء

19 مارچ ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان“ میں میزبان مبشر ہاشمی سے گفتگو کرتےہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو اس عدالت میں ایک ملزم کی حیثیت سے پیش ہونا تھا، سینئر صحافی و تجزیہ کار، محمد مالک نےکہا کہ اگر ماحول خراب کرنا ہے کہ انتخابات نہ ہوں پھر تو درست حکمت عملی ہے، نگراں وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے کہا کہ گرفتار افراد کی سکروٹنی کا عمل جاری ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہفتے کو لاہور میں ایکشن ہوا ہے جو کہ بنیادی طور پر نگراں حکومت نے کیا ہے۔ وفاقی لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کی حمایت یا سہولت ان کو حاصل تھی۔ انہوں نے وہاں پر قائم ایک نو گو ایریا کلیئر کیا ہے۔ وہاں پر 65 کے قریب شرپسند، دہشت گرد گرفتار کئے ہیں۔ جن میں میری معلومات کے مطابق15 کے قریب ایسے لوگ ہیں جن کا کالعدم تنظیموں سے تعلق ہے۔ جوڈیشل کمپلیکس میں عدالت کی اجازت سے ایک لسٹ تیار ہوئی بلکہ عدالت نے خود وہ فہرست تیار کی۔ ہمیں یہ حکم دیا کہ آپ ان لوگوں کے علاوہ کسی کو وہاں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے ان تمام لوگوں کو جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے کی اجازت دی جن کو عدالت نے اجازت دی تھی۔ عمران خان کو اس عدالت میں ایک ملزم کی حیثیت سے پیش ہونا تھا۔ عمران خان کا یہ مطالبہ تھا کہ میرے ساتھ جو تین چار سو لوگ ہیں انہیں داخلے کی اجازت دی جائے۔ ہم نے اسے روکا اس کے بعد عدالت نے گاڑی میں اس کی حاضری لگا لی۔ جب ایک آدمی اس طرح کی غنڈہ گردی کرے، سرکشی کرے اس کے بعد آپ اس کو سہولت فراہم کردیں تو وہ تو پھر یہی کچھ کرے گا اور یہی وہ کررہا ہے۔ اس کی سرکشی یہ دنوں، ہفتوں میں نہیں یہ گھنٹوں میں ختم ہوسکتی ہے۔ ہم نے اس کے اردگرد کوئی اسلحہ سے مسلح لوگوں کو تعینات نہیں کیا تاکہ اس فتنے کی کوئی سازش کامیاب نہ ہوجائے۔ یہ اپوزیشن میں رہے یا حکومت میں رہے یہ فتنہ اس ملک کو آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ نگراں وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے کہا کہ دھاوا تو نہیں بولا گیا کورٹ نے روکا ہوا تھا کورٹ تین روز سے اگلے دن دس بجے گیارہ بجے تک آپریشن روکنے کا کہہ دیتی تھی۔ 13,14 مارچ کو جن لوگوں نے پولیس والوں پر تشدد کیا تھا پیٹرول بم پھینکے تھے۔ پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں توڑی تھیں پتھر مارکر ان کے سر پھاڑے تھے ان کے خلاف ایکشن تو ہونا تھا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور یہ عدالت کو بتا چکے تھے لاہور ہائی کورٹ نے جواب میں یہ کہا تھا کہ ہم آپ پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگا رہے کہ آپ کسی کو گرفتار نہ کریں۔ عدالتی احکامات پر چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈر شپ کے تین لوگوں سے میٹنگ ہوئی تھی۔ جس میں یہ طے کیاگیا تھا جو لوگ تشدد میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف مقدمات درج کئے جاچکے ہیں ان کی وارنٹ گرفتاری اور سرچ وارنٹ کی عملداری میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ ان کی مدد کرے گی۔ سرچ وارنٹ دکھانے کے باوجود انہوں نے ہمیں اجازت نہیں دی اور پولیس گھر کے اندر نہیں گئی۔ یہ دعوے نہیں الزامات ہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ خواتین پولیس ساتھ نہ ہو۔64 افراد گرفتار ہوئے ہیں جن سے اسلحہ، پیٹرول بم، غلیل بھی برآمد ہوئے ہیں۔ ابھی گرفتار افراد کی سکروٹنی کا عمل جاری ہے۔ زمان پارک کے مکینوں کا بھی حکومت پر بہت دباؤ تھا کہ ہمیں نارمل زندگی کا موقع دیں۔ جب بھی اس کو دوبارہ نو گو ایریا بنانے کی کوشش کی جائے گی تو آپریشن کیا جائے گا۔ سینئرصحافی و تجزیہ کار، محمد مالک نے کہا کہ ہفتے کی کارروائی سے شرمندگی حاصل ہوئی اگر حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ ہم پی ٹی آئی کو اتنا زیادہ مجبور کریں کہ رد عمل دیں۔ سڑک پر اداروں اور پی ٹی آئی کے ورکروں کا تصادم ہوپھر تو بہت کامیاب حکمت عملی ہے۔ اگر ماحول خراب کرنا ہے کہ انتخابات نہ ہوں پھر تو درست حکمت عملی ہے۔ اصل چیز یہ نہیں ہے کہ فرد جرم عائد ہوتی ہے یا نہیں ہوتی 30 مارچ کو یہ ڈرامہ پھر دہرایا جائے اصل چیز یہ ہے کہ یہ چیز جا کہاں پر رہی ہے۔ ہمیں واضح نظر آرہا ہے کہ حکومت ہر قیمت پر الیکشن ملتوی کروانا چاہتی ہے۔ جو زمان پارک میں ہوا ہے اس کا رد عمل ابھی آئے گا۔