مقبوضہ کشمیر ،300 سے زیادہ حریت پسندوں اور ان کے حامیوں کے اثاثے ضبط

21 مارچ ، 2023

سری نگر(کے پی آئی) بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں300سے زیادہ کشمیری حریت پسندوں اوران کے حامیوں کے اثاثے ضبط کر لیے ہیں ۔ بھارتی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے ، اورجموں و کشمیر میں نئی دہلی کے زیر کنٹرول ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے) نے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں جاری کارروائیوں کے دوران300سے زیادہ کشمیری حریت پسندوں اوران کے حامیوں کے گھر، جائیدادوں بالخصوص زمینوں کو بحق سرکار ضبط کر لیا ہے ۔ اس سلسلے میں پیر کے روز بھی شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے گنڈ پورہ اعجاز احمد ریشی اور مقصود احمد ملک کے گھروں کو بحق سرکار قرق کر لیا گیا ان پر کشمیری حریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کےا یڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کشمیر وجے کمار نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ این آئی اے ، اورایس آئی اے نے 300 سے زیادہ کشمیری حریت پسندوں اوران کے حامیوں کے اثاثے ضبط کر لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون میں ایک شق موجود ہے کہ اگر کسی گھر میں کوئی انکائونٹر ہوتا ہے یا عسکریت پسندوں کو پناہ ملتی ہے تو ہم عموما گرفتاریاں کرتے ہیں لیکن اب ہم جائیداد ضبط کر لیتے ہیں۔پچھلے کچھ مہینوں میں، تفتیشی ایجنسیوں نے عسکریت پسندوں اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف بڑی کارروائی کی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں این آئی اے، ایس آئی اے اور دیگر تنظیموں نے 300 سے زیادہ عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کے اثاثے ضبط کیے ہیں۔ وجے کمار نے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں اب صرف 28 مقامی عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے ماضی میں عسکریت پسندوں کو پناہ دی یا ان کی حمایت کی، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ ادھرمقبوضہ کشمیر میں انسداد تجاوزات مہم کے نام پر کشمیریوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے بے دخلی کی مہم جاری ہے ۔ اس مہم سے بلالحاظ مذہب و ملت اور ذات ومسلک تمام کشمیری عوام میں خوف ودہشت پیدا ہو گئی ہے ۔مقامی لوگوں کا کہناہے کہ اس مہم سے غریب لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں جن کے پاس معمولی سی زمینیں ہیں جو ان کے زندہ رہنے کا واحد ذریعہ ہے۔ایک مقامی تاجر فردوس صوفی نے بتایاکہ میں گزشتہ 30سال سے سرینگر میںایک دکان چلا رہا ہوں۔ ان دہائیوںمیں مجھے کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ یہ سرکاری سرزمین ہے۔ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے، میں اب کہاں جائوں؟فردوس کی والدہ سارہ صوفی نے چیختے ہوئے کہاکہ میں دل کی مریضہ ہوں، انتظامیہ میرے بیٹے کی دکان گرا رہی ہے۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ ہمارے پاس یہ جگہ صرف اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے ہے۔ اگر وہ اسے گرا دیں گے تو میں یہیں مر جائوں گی۔اہلخانہ کا کہنا ہے کہ بلڈوزرکے دہلیز پرپہنچنے سے پہلے انہیں بے دخلی کا کوئی نوٹس نہیں ملا۔انہوں نے کہاکہ ہم سو رہے تھے جب ہم نے سنا کہ لوگ ہماری دکان کے سامنے جمع ہیں۔ہمیں حکام کی طرف سے بے دخلی کاکوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے حکام کواس زمین کے کاغذات بھی دکھائے لیکن کسی نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔بلڈوزر نے دوسری دکان گرانا شروع کیا تو ایک خاندان اپنے عارضی خیمے سے باہر نکلا ۔ انہوں نے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے انسانی زنجیر بنائی۔ سکینہ نامی خاتون نے کہاکہ ہم یہاں گزشتہ 20سال سے کام کر رہے ہیں۔ حکومت ہمارا عارضی گھر گرا رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم سڑکوں پر رہیں، لیکن ہماری تین چھوٹی بیٹیاں ہیں۔ ہم کہاں جائیں گے؟ ۔مودی حکومت نے انسداد تجاوزات مہم کے دوران وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں کئی سینئر رہنمائوں، تاجروں اورعام لوگوں سے ہزاروں کنال اراضی، عید گاہیں اور اوقاف کی زمینیں چھین لیں۔ سرینگر کے علاقے مہجور نگر میں اپنی تباہ شدہ دکان پر کھڑے سمیر کاکہنا ہے کہ ہم چھ افراد یہاں اسکریپ کا کاروبار کرتے تھے جبکہ دیگر150افراد ہمارے لیے کام کرتے تھے۔ انتظامیہ نے بغیر کسی نوٹس کے ہماری دکانوں کوگرانا شروع کر دیا۔ یہی ہمارا ذریعہ معاش تھا۔