لندن میٹروپولیٹن پولیس میں نسل پرستی اوربدسلوکی عام ہے،تحقیقی رپورٹ

23 مارچ ، 2023

لندن (سعید نیازی) لندن کی میٹروپولیٹن پولیس میں ’’بوائز کلب‘‘ کا کلچر رائج ہے اور فورس نے بچوں اور خواتین کو مایوس کیا ہے، کیونکہ اس میں نسل پرستی، ہم جنس پرستی کی مخالفت اوربدسلوکی عام ہے۔برطانیہ کی سب سے بڑی پولیس فورس پر یہ تنقید بیرونس کیسی Casey نے ایک برس کی طویل تحقیق کے بعد جاری ہونے والی رپورٹ میں کی ہے۔2021میں حاضر سروس پولیس آفیسروین کوزنز کے ہاتھوںسارہ ایواراڈ کو اغوا کرکے اس کی عصمت دری کے بعد قتل کرنے کے واقعہ کے بعد بیرونس کیسی کو پولیس کے کلچر اور معیارکے حوالے سے رپورٹ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ میٹ پولیس کے کمشنر سر مارک رولی نے رپورٹ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ فورس نے لندن کے باسیوں کومایوس کیا ہے۔ رپورٹ کی تیاری کے دوران ایک دوسرے پولیس آفیسر ڈیوک کیرک کو خواتین سے بدسلوکی، تشدد اور ریپ کرنے کے الزامات میں سزا سنائی گئی ہے۔ بیرونس کیسی کی 363صفحات پر مبنی رپورٹ میں پولیس فورس کو ادارہ جاتی طورپر نسل پرستی، ہم جنس ہونے کی مخالف اور بدسلوکی کا مرتکب قرار دیا گیا، جس میں عملہ بھی جنسی امتیاز کا سامناکرتا ہے۔ افسران اور عملہ نسل پرست ہیں اور ہم جنسی کی مخالفت کی جڑیں آرگنائزیشن میں بہت گہری ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ اب کوئی نیبرہڈ پولیسنگ سروس فعال نہیں۔ میٹ کی ٹیموں کی قیادت کرنے والے کئی دہائیوں سے مسائل کی موجودگی سے انکاری ہیں جس کے سبب ادارے سے امتیازی سلوک اور غنڈہ گردی کے رویہ کو جڑ سے اکھاڑپھینکنا ممکن نہیں، فورس عورتوں کو ایسے افسران سے بچانے میں ناکام رہی ہے جو ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہیں اور فورس میں کوزنز اور کیرک جیسے مزید افسران کی موجودگی کو مسترد نہیں کرسکتیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات ایک دہائی کے دوران دگنا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ان مسائل سے نمٹنے کیلئےبنائی گئی ٹیمیں ناتجربہ کار ہیں، کام زیادہ ہے اور عملہ بھی کم ہے۔ فورس میں امتیازی سلوک کو اکثر نظراندازکیا جاتا ہے۔ شکایات کارخ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افسران کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ سفید فام کے مقابلے میں سیاہ فام افسران کیخلاف انضباطی کارروائی کا امکان 81فیصد زائدہوتا ہے۔ میٹ میں تنوع کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ رپورٹ میں یہ انکشافات بھی کئےگئے ہیں کہ خستہ حال فریزر میں بار بار زیادہ اشیا رکھی گئیں۔ گزشتہ برس موسم گرما میں شدید گرمی پڑنےپر ایک فریزرخراب ہوا تو اس میں رکھے شواہد ضائع ہوگئے اور ایک مبینہ عصمت دری کے کیس کو ختم کرنا پڑا، خواتین ساتھیوں کی کاروں پر پیشاب سے بھرے تھیلے پھینکے جاتے، مرد افسران ایک دوسرے کے ساتھ جنسی چھیڑ چھاڑ کرتے ، ایک سکھ افسر کو ساتھی افسران کے مذاق اڑانے کے سبب داڑھی تراشناپڑی، ایک سکھ افسر کی پگڑی جوتوں کے ڈبوں میں ڈالی گئی، ایک پولیس افسر کے جوتوں پرسور کا سر رکھ دیا گیا تھا۔ بیرونس کیسی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بڑھتی آبادی، مسلسل کفایت شعاری اور فنڈنگ کی کمی کے سبب پولیس فورس پر دبائو بڑھا، اور وہ سمجھتی ہیں کہ 1999میںسیاہ فام نوجوان اسٹیفن لارنس کے قتل کے بعد شائع ہونے والی میکفرسن رپورٹ کے بعد بھی فورس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی جبکہ اس رپورٹ میں پولیس کو ادارہ جاتی طور پر نسل پرست قرار دیا گیا تھا، پولیس خود کو درپیش اس مسئلہ سے اب تک نہیں نمٹ سکی ہے۔ مقتول اسٹیفن لارنس کی والدہ بیرونس ڈواین لارنس نے کہا ہے کہ اب پولیس کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ خود تبدیل کرے۔ بیرونس کیسی نے اپنی رپورٹ میں پولیس فورس کو درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے 16 سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرفورس کے آئندہ جائزہ کے بعدبھی تبدیلی نظر نہ آئے تو پھر اس کی ساخت میں تبدیلی کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ جیسا کہ قومی، خصوصی اور لندن کے معاملات کو الگ الگ کر دیا جائے۔ میٹ کمشنر مارک رولی نے کہا کہ وہ رپورٹ میں سامنے آنے والے مسائل کو قبول کرتے ہیں لیکن وہ ادارہ جاتی نسل پرستی کا لفظ استعمال نہیں کرینگے کیونکہ یہ سیاسی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے فورس کی قیادت سنبھالی ہے سینکڑوں مسائل پیدا کرنے والے افسران کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس رپورٹ کے نتائج سے نئی شروعات ہونی چاہئے۔ وزیراعظم رشی سونک سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اپنی بیٹیوں کوبتائیں گے کہ وہ پولیس پر بھروسہ کر سکتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کا جواب ہاں میں ہونا چاہئے، تاہم اس وقت پولیس پر لوگوں کے اعتمادکو نقصان پہنچاہے جب ان سے زور دیکر پوچھا گیا کہ کیا وہ خودبھی پولیس پر اعتمادکرتے ہیں توان کا کہنا تھا کہ تمام لوگوں کے اعتمادپردبائوبڑھا ہے۔میئر لندن صادق خان نے کہا کہ آج پولیس کی 200سالہ تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، لیکن ذاتی تجربات کے بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ رپورٹ میرے لئے حیران کن نہیں، انہوں نے کہا کہ فورس کو توڑنے کی بجائے مسائل کو حل کرنے ہونگے۔