عمران خان مایوسی کا شکار، تشدد پر اتر آیا، جن پر حکومت گرانے کا الزام لگاتا رہا انہی سے مدد مانگ رہا ہے، وفاقی وزرا

25 مارچ ، 2023

کراچی (نیوز ڈیسک) وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے امریکا پر ان کی حکومت گرانے کا الزام عائد کیا اور اب ان سے ہی مدد مانگ رہے ہیں۔ وہ مایوسی کا شکار ہیں اور پرتشدد کارروائیوں پر اترآئے ہیں، تمام دعوئوں کے باوجود عمران خان نے موجودہ حکومت سے مذاکرات کی باقاعدہ کوئی پیش کش نہیں کی۔ حکومت ملک میں امن کی خاطر مذاکرات کے لیے تیار ہے کیونکہ اہم معاملات پر اتفاق رائے ضروری ہے جیسا کہ پاکستان کو چند برسوں سے مسائل کا سامنا ہے۔اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ہماری حکومت ایک سال مکمل کرنے جا رہی ہے اور یہ حکومت ایک آئینی اقدام کے تحت آئی تھی، لیکن اس اقدام کو روکنے کے لیے عمران خان کی اس وقت کی حکومت نے مختلف غیر آئینی طریقے اپنائے گئے۔ عمران خان کے ان غیر آئینی کاموں میں صدر مملکت اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے، رات گئے اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ختم کرکے چیزیں ٹھیک کیں اور آج ہماری حکومت ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران کئی واقعات ہوئے، عمران خان کا سیاسی سفر سائفر سے شروع ہوا اور آج شیریں مزاری نے امریکا کو خط لکھ دیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور دیگر کئی مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ ایک ملک جس کو پاکستان یا عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش کا الزام دیا گیا۔ اب وہی لوگ مدد اور حفاظت کے لیے بیرونی سازش کے تخلیق کاروں سے رابطہ کر رہے ہیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ یہ عمران خان کا حکومت سے نکلنے اور آج امریکا کو پیغام تک کا سفر ہے، دنیا میں کہیں بھی ایک ملزم عدالت میں پیش ہونے سے انکار نہیں کرتا لیکن ٹیلی ویژن کی اسکرینز پر چند ہفتوں سے دیکھا جارہا ہے کہ عمران خان عدالتوں میں پیش ہونے سے انکار کر رہا ہے اور کئی وجوہات اس کی صفائی میں بیان کر رہا ہے۔جب عدالت میں پیشی ہوتی ہے تو وہ کار میں بیٹھا ہوتا ہے اور عدالتوں پر ہجوم اور حامیوں کے ذریعے حملہ کرتا ہے، جب کبھی پیش ہوتا ہے تو عدالتوں پر دباؤ ڈالتا اور انہیں دھمکیاں دیتا ہے اور جب پولیس کو گرفتاری کے لیے ان کے گھر بھیج دیا گیا تو ان پر بھی حملہ کردیا گیا اور ان پر فائرنگ کی گئی۔ گرفتاری کے لیے ان کے گھر کے باہر تصادم میں 70 سے 80 پولیس افسران زخمی ہوئے، جن میں سینئر افسران بھی شامل تھے لیکن یہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا یہاں تک کہ ان کی حکومت یا اس سے پہلے بھی نہیں ہوا اور اس وقت بھی اپوزیشن رہنما اور کارکنوں نے اچھے انداز میں گرفتاری دے دی۔غیر ملکی میڈیا کو خواجہ آصف نے بتایا کہ ماضی میں سیاسی کارکنوں نے بڑے اچھے طریقے سے گرفتاری قبول کی، چاہے ان سے جس طرح کا بھی انتقام لیا جا رہا ہو لیکن انہوں نے کبھی اپنی گرفتاری کی اس طرح مزاحمت نہیں کی یا عدالتوں کی بے عزتی یا بدنام نہیں کیا۔ عمران خان کے دور میں مسلم لیگ (ن) کی تقریباً پوری قیادت گرفتار ہوئی، ہمارے قائد نواز شریف نے گرفتاری دی اور سرینڈر کرنے کے لیے برطانیہ سے واپس آئے اور ان کی بیٹی گرفتار ہوئی، موجودہ وزیر اعظم، ان کے بیٹے اور بھتیجے گرفتار ہوئے لیکن کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، مجھے گرفتار کیا گیا اور تقریباً 6 مہینے جیل میں رہا۔ میری اہلیہ تقریباً 3 سال تک عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں۔ میری اہلیہ اور میرا بیٹا بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ اپوزیشن کو بری طرح انتقام کا نشانہ بنایا، ہماری تاریخ میں مارشل لا یا سیاسی حکومتوں کے دوران کارروائیاں ہوئیں لیکن اس طرح کے واقعات کبھی نہیں ہوئے۔ سیاست دانوں کو پھانسی دی گئی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی جو عدالتی قتل تھا، بینظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے شہید کردیا، نواز شریف کو حکومت سے 3 دفعہ نکالا گیا لیکن ہم نے کبھی اس طرح کی مزاحمت نہیں کی جو گزشتہ تین یا چار ہفتوں سے ہو رہا ہے، آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ عدم اعتماد کے بعد حکومت لینے سے سیاسی نقصان ہوا ہے اور ہمیں قیمت ادا کرنا پڑی ہے، ہمارے پاس اس وقت اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کے اعلان کا آپشن تھا لیکن ہم عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات میں تھے اور ان کی شرائط عبوری حکومت نہیں کرسکتی تھی جو ایک منتخب حکومت کرسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم نے یہ جانتے ہوئے کہ سیاسی نقصان ہوگا حکومت جاری رکھی اور آج بھی ہم صورتحال کا انتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر روز ایک بحران ہوتا ہے جو عمران خان کی جانب سے پیدا کیا ہوا ہے اور ہم اس سے نمٹ رہے ہیں اور ہم اس سے کامیابی کے ساتھ نکل آئیں گے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں معاشی صورت حال اور تمام چیزیں جو اس نے خراب کی ہیں وہ ٹھیک ہوجائیں گی۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت گزشتہ برس معاشی پالیسی پر اتفاق رائے کے قریب پہنچی تھی لیکن پیش کش مسترد کردی گئیں۔عمران خان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عسکری قیادت کو مذاکرات کی کئی بار پیش کش کی، اس حقیقت کے باوجود کہ موجودہ حکومت کئی مواقع پر بات کرنے کی خواہاں تھیں لیکن عمران خان اصرار کرتے رہے اور پاک فوج کی موجودہ قیادت سے بات کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے صدر مملکت کے ذریعے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بات کرنے کی کوشش کی اور یہاں تک کہ انہیں توسیع کی پیش کش بھی کردی تھی۔