صدر کا خط، PTI پریس ریلیز، یہ آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں بلکہ حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے، وزیراعظم، صدر سے مشاورت کا پابند نہیں، شہباز کا جوابی خط

27 مارچ ، 2023

اسلام آ باد (نمائندہ جنگ) وزیراعظم شہبازشریف نے صدر عارف علوی کو پانچ صفحات اور سات نکات پر مشتمل جوابی خط تحر یر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر کا خط پی ٹی آئی کی پریس ریلیز لگتا ہے،یکطرفہ خط حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے اور صدر کے منصب کا آئینہ دار نہیں،قوم عمران خان کی کارکردگی پر جواب طلب کر رہی ہے،صوبائی اسمبلیاں وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کیلئے توڑی گئیں، عدالتی حکم کیخلاف عسکریت پسندی پہلےکبھی نہیں دیکھی گئی، میں اور وفاقی حکومت آئینی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ، آئین کے دفاع کے عہد پر کاربند ہیں، آئین کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدر کی مشاورت کا پابند نہیں،اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بنانے کی کوشش کی، میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام رہے، آئینی طورپر منتخب حکومت کوکمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائینگے۔خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپکا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے۔ آپکا خط یکطرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ آپکا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کررہے ہیں۔ 3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپکے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا۔ آرٹیکل 91 کلاز5کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے۔ کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کیخلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ میں نے آپکے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اُس سے آپکو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے۔ آئین کے آرٹیکل 10 ے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیاگیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کیلئے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔ تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے۔ جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنےو الے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کردیا۔ آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑپھوڑ، افراتفری پیداکرنے کی کوششوں کو نظر انداز کردیا۔ پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظرانداز کردیا۔ پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔ آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس بارے میں آواز بلند نہیں کی۔ آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ2022 کی طرف دلاتا ہوں، پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی۔ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے۔ رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید وبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی متعدد رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ رکن قومی اسمبلی رانا ثناءاللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایاگیا جسکی سزا موت ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قید وبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کیلئے نیب کو استعمال کیاگیا۔ افسوس بطور صدر پاکستان آپ نے ایک بار بھی اِن میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی۔ آپ بطور صدر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی اِن خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے۔ آپکے خط کا جواب اسی لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یکطرفہ رویے کو ریکارڈ پر منکشف کردوں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے عام، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دی۔ آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کردیا۔ آپ نے دو صوبوں میں بدنیتی پرمبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی۔ یہ سب آپ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انا اورتکبر کی تسکین کیلئے کیا۔ صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی وقانونی مقصد کیلئے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کیلئے تحلیل کی گئیں۔ آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ دوصوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کرانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہوجائیگا۔ آپ نے آرٹیکل 218 کلاز تین کے تحت شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے تقاضے کو بھی فراموش کردیا۔ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طورپر نظر انداز کردیا جو نہایت افسوسناک ہے۔ آپکا یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں۔ الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے۔ تمام وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کو مہیا کی ہیں۔ الیکشن کرانے کی ذمہ داری آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپی ہے۔ الیکشن کمیشن نے طے کرنا ہے کہ شفاف وی آزادانہ انتخاب کرانے کیلئے آرٹیکل 218 تین کے تحت سازگار ماحول موجود ہے۔ صدر نے اپنے خط میں سابق حکومت کے وفاقی وزراءکے جارحانہ رویے اور انداز بیان پر اعتراض نہیں کیا۔ سابق حکومت کے وزرا مسلسل الیکشن کمیشن کے اختیار اور ساکھ پر حملے کررہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کی شق15 پانچ بی کی صدر کی تشریح درست نہیں۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت کی آپکی بات درست نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 48 کلاز وَن کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک اس کا اطلاق ہے، نہ زیادہ نہ اس سے کم۔ وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدر کی مشاورت کا پابند نہیں۔ جناب صدر، میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں۔ آئین میں درج ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر کاربند ہیں۔ حکومت پرعزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے۔ آپکو یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طورپر منتخب حکومت کوکمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائینگے۔