کیا PTIارکان مشترکہ اجلاس میں روایتی احتجاج جاری رکھیں گے

27 مارچ ، 2023

اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف کے تمام سینیٹرز آج ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور کم وبیش ایک سال ہونے کو آیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی نمائندگی قومی اسمبلی کے ایوان میں ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نظر آئے گی۔ اجلاس سے قبل ایوان بالا میں تحریک انصاف سے وابستگی رکھنے والے اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم کی سربراہی میں اجلاس کے دوران ایوان میں کی جانے والی حکمت عملی وضع کریں گے۔ اب یہ حکمت عملی کیا ہوگی؟ ہنگامہ آرائی، غیر پارلیمانی ریمارکس اور گفتگو، جارحانہ احتجاج اور پھر ایوان سے واک آئوٹ۔ کیا سینٹ کے اجلاس میں کی جانے والی ہنگامہ آرائی کا ’’ایکشن ری پلے‘‘ مشترکہ اجلاس میں بھی دہرایا جائے گا یا پھر ایوان بالا کے معزز ارکان اپنے طرزعمل سے ظاہر کریں گے کہ انہوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) سے طویل وابستگی رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بائیکاٹ ختم کرنا تحریک انصاف کا ایک جمہوری طرز عمل ہے جو قابل ستائش ہے لیکن اب اجلاس میں اختیار کیا جانے والا طرزعمل ان کے آئندہ کے ارادوں اور عزائم کا تعین کرے گا۔ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے سینیٹرز کا مشترکہ اجلاس میں طرزعمل ان کے ارکان قومی اسمبلی کی ایوان میں واپسی کی راہ بھی ہموار کرسکتا ہے۔قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک 9 اپریل 2022 کو منظور ہوگئی تھی اور یہ پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے جمہوری اور آئینی طریقے سے اس کی حکومت کو ’’گڈ بائے‘‘ کیا گیا تھا جس کے بعد عمران خان نے ایوان میں پارلیمانی روایات کے برعکس اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کی بجائے ایوان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا گویا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اقتدار سے محرومی کے بعد وہ پارلیمان اور جمہوریت کی مروجہ روایات سے بغاوت کرکے اقتدار کے حصول کیلئے ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی سیاست کریں گے اور اسی لئے انہوں نے اپنے ارکان قومی اسمبلی کو بھی مستعفی ہونے کے احکامات جاری کر دیئے۔ گوکہ اس فیصلے پر سیاسی نقصانات کا اندازہ پارلیمانی سیاست سے قطع تعلق کرنے اور جمہوری عمل سے باہر ہونے کے بعد انہیں ایوان سے باہر احتجاج اور توڑ پھوڑ کی سیاست سے سراسر نقصان ہی ہوا اور انہوں نے اپنے قومی اسمبلی کے ارکان کو واپس ایوان میں بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن ابھی تک انہیں اپنے اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی البتہ انہوں نے ایوان بالا میں اپنے ارکان کو مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی ۔