قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات بل منظور، نواز شریف کو اپیل کا حق

30 مارچ ، 2023

اسلام آباد (نامہ نگار،وقائع نگار،ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے بعض ترامیم کیساتھ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی کثرت رائے سے منظوری دیدی،بل آج منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا جائےگا جس کیلئے اجلاس صبح ساڑھے 10بجے طلب کرلیا گیا ہے ۔بل میں محسن داوڑ کی ترمیم بھی شامل کر لی گئی ہےجس سے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا کیخلاف اپیل کا حق مل گیا جبکہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ یوسف رضاگیلانی، جہانگیر ترین ‘ نسلہ ٹاورکے متاثرین سمیت از خود نوٹس کیسز کے فیصلوں کے دیگر متاثرہ فریق بھی ایک بار اپیل کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ پیپلزپارٹی نے محسن داوڑ کی ترمیم کی حمایت کر دی ۔بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف کا کہناتھاکہ ہم نے قانون سازی کے حوالہ سے تمام لوازمات پورے کئے ہیں،یہ قانون بہت پہلے منظور ہو جانا چاہئے تھا،وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ عمران خان ،قاسم سوری اورصدرعلوی پر آئین شکنی کامقدمہ چلایاجائے جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے کہاکہ اپیل کا حق ملنے اور یکساں طریقہ سے بنچ بننے سے ون مین شو کا اختتام ہو گا اور اجتماعی سوچ مضبوط ہو گی‘مولانا عبدالاکبر چترالی کا کہنا تھاکہ اتنی عجلت میں بل منظور کرنیکی کیا ضرورت تھی ‘ کل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرہے ہیں، اس کا کیا کریں گے‘کیا اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھیں گے۔ سائرہ بانونے کہاکہ اپنے پاؤں پر پاؤں آیا تو قانون سازی کا خیال آیا ،کیا عوام کے مسائل کے حل کیلئے بھی کوئی قانون سازی کی گئی ہے‘ججز کے آپس کے اختلافات کا فائدہ نہ اٹھائیں،انھیں اپنا کام کرنے دیں، آپ اپنا اصل کام کریں۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں بل ایوان میں فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کی منظوری کے بعد انہوں نے بل پیش کیا ‘بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ یہ ایوان قانون سازی کا اپناآئینی حق استعمال کررہا ہے،یہ ایوان سپریم ہے اور آئین کا خالق ہے ، دوسرے تمام ادارے اس کی ایک قسم کی توسیع ہیں۔ہمیں آئین، قانون اور عوام کا مینڈیٹ یہ حق دیتا ہے،ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں،قانون و آئین ہمیں جو حق دیتا ہے اس کو ہمیں استعمال کرنا پڑے گا۔ہمیں جمہوریت، آئین اور قانون کا درس دیا جاتا ہے تو اس ادارے کے رولز میں بھی جمہوریت کے اثرات ہونے چاہئیں، اہر ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی حدود کا تحفظ کرے،جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری کیلئے اتنی جلدی کرنے کی ضرورت کیا تھی،ملک میں اس سے بھی شدید مسائل اس وقت موجود ہیں۔یہ دوسرا بل وکلا کو رشوت کے طور پر دیا گیا ہے۔ ہم چیف جسٹس کو مقید کریں گے لیکن کل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرہے ہیں، اس کا کیا کریں گے، اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھیں گے۔ رکن اسمبلی صالح محمد نے کہا کہ ہم بھی اصلاحات کے حق میں ہیں لیکن عدلیہ پر ڈاکا ڈالنے کے حق میں نہیں ،جو قانون سازی ہو رہی ہے یہ عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیا تو اسی وقت غیرجمہوری قوتوں نے ایک ہائبرڈ جنگ شروع کی تھی،یہ حملہ ہر طرف سے ہو رہا تھا‘1996 میں جس طریقے سے جنرل (ر) حمید گل اس سلیکٹڈ کو انگلی پکڑ کر سیاست میں لے کر آئے وہ کیوں لے کر آئے۔اس کے بعد جو کردار جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل فیض حمید کا تھا وہ آپ کے سامنے ہیںاور تاریخ کا حصہ ہے۔ہمارے کچھ اتحادی بھول جاتے ہیں کہ ایک اور چیف جسٹس بھی اس میں شامل تھا، جسٹس افتخار چوہدری نے اس روایت کی بنیاد ڈالی۔پاشا آیا، ظہیر آیا سب چلے گئے لیکن عمران خان نیازی بدستور موجود ہے، اس کرکٹر کو ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لے کر آئی اورپاکستان کے 30 ادارے اس جرم میں شامل تھے کہ وہ ایک فریکنسٹائن بنا رہے تھے۔ہمارے اداروں میں کچھ آئن سٹائن بیٹھتے ہیں اور اس ملک کے فیصلے کرتے ہیں، اسٹریٹجک اثاثے بناتے ہیں اور پھر آخر میں یہ ہمارے گلے پڑ جاتے ہیں۔وفاقی وزیر مفتی عبدالشکور نے کہاکہ قانون سازی ہمارا حق ہے ،کسی جنرل یا جج کا نہیں،جو اپنی حدود پار کرے انکو روکنے کیلئے قانون سازی کا حق رکھتے ہیں۔ جویریہ ظفر آہیر نے کہاکہ گمان ہوتا ہے کہ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو، اس بل کی ٹائمنگ غلط ہے مگر میں اس بل کی حمایت کرتی ہوں۔قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بل قانون کی حکمرانی کیلئے ہے اور اس سے ون مین شو ختم ہوگا۔وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بل فرد واحد کے اختیارات کو سینئر ججوں میں تقسیم کرنے پر ہے، عدالتوں کے اندر ججوں کی جو اختلافی آواز آرہی ہے وہ سب کے سامنے ہے اور یہ پارلیمان کا حق ہے جو وہ استعمال کر رہا ہے۔رکن اسمبلی احمد حسین ڈیہڑ نے کہاکہ میں بل پیش کرنے والوں اورپاس کرنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، وکیل ہونےکی حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا۔دیر سے ملنے والا انصاف انصاف نہیں ہوتا، انصاف نظر بھی آنا چاہیے، اگر یہ قانون پاس ہو جائے تو میں سیلوٹ کرتا ہوں، ذوالفقار علی بھٹو نے آئین دیا انہیں پھانسی دے دی گئی، نواز شریف تین بار کے منتخب وزیر اعظم تھے، انہیں بھی سزا دے کر ملک سے باہر بھیج دیا گیا، نور عالم خان نے کہا کہ چند روز پہلے مشترکہ اجلاس میں ہم نے پھر وہ ماحول دیکھا جو سال سے نہیں دیکھا تھا، پھر اس ایوان میں گالم گلوچ ہوئی، بدتمیزی کا وہ ماحول بنا جو چار سال چلتا رہا اس لیے یہ ترمیم بہت مناسب ہے لیکن تین کے بجائے سات جج ہونے چاہئیں کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے میں تین ججز کے فیصلوں سے ہی مشکلات ہوئیں۔نور عالم خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے پیسے جو لوٹتے ہیں انہیں حکم امتناع مل جاتا ہے۔اجلاس کے دور ان اعظم نذیر تارڑ نے وکلا کی بہبود اور سکیورٹی کے حوالے سے ʼلائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔