انتخابات کیس، ازخود نوٹس پر فیصلہ چار تین سے ہے، آرڈر جاری نہیں ہوا تو صدر نے تاریخ کیسے دیدی، جسٹس مندوخیل

30 مارچ ، 2023

اسلام آباد(جنگ رپورٹر)عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبہ پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواء میں پر امن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے حوالے سے تحریری یقین دھانیاں طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جمعرات (آج)تک ملتوی کردی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کی یکم مارچ کی کارروائی سے متعلق منگل کے روز جاری ریمارکس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن پیداہوئی ہے، میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں، فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے قواعد سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس کو کہیں گے کہ قواعد دیکھنے کے لیے ججوں کی کمیٹی تشکیل دی جائے ،کمیٹی انتظامی اختیارات کے قواعد کو دیکھے۔فیصلے کے دوسرے حصے میں ہم 4 ججوں نے ازخود نوٹس اورآئینی درخواستیں مستردکی ہیں، چارججوں کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہےاور یہ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا،جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کے انعقاد کی تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کیسے جاری کیا؟ عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوالیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج دستخط کرتے ہیں۔دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل، فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے یکم مارچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ا نصاف کا تقاضہ پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کی وضاحت کردینی چاہئے کہ یہ فیصلہ چار ،تین ججوں کی اکثریت کا ہے؟ یا تین ،دوججوں کی اکثریت کا ہے؟ قوم ایک مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے جبکہ سپریم کورٹ کو عوام کی عزت، وقار اور اعتماد کو برقرار رکھنا ہے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے بدھ کو کیس کی سماعت کی تو فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آکر عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم نے بھی اس مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی جانب سے ہے؟ انہوںنے وضاحت کی کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہی اس درخواست میں چیلنج کیا گیا ہے،اس لئے ہم پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف سنیں گے۔دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن آرڈر کے بغیر کیسے عمل کررہا ہے؟ 4 ججوں میں سے 2 میرے بھی سینئر ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں آپ کی وضاحت آگئی ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال کے ان ریمارکس کے بعد اس کیس کی سماعت کے لئے فل کورٹ بنائی جانی چاہئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 جج بینچ میں بیٹھنے چاہئیں۔ فاضل جج نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیاہے؟ تو انہوںنے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے عدالت کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے اجراء کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا تھا،جس پر انہوںنے پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے لئے 30 اپریل کی تاریخ دی تھی،انہوںنے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس لینے کا اختیار کس کا ہے ؟یہ اندرونی معاملہ ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے،3/2 والے فیصلے پر پانچ ججوں کے دستخط ہیں،انہوںنے وضاحت کی کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کے پیراگراف 14 اور ابتدائی سطروں کو پڑھ کر عملدرآمد کیا ہے،جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟ فاضل وکیل نے کہا کہ ممکن ہے کہ فیصلے کوسمجھنے میں ہمیں غلطی ہوئی ہو؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مختصر حکم نامہ میں لکھا ہواہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟تو فاضل وکیل نے جواب دیا کہ اسی بات کو دیکھ کر عدالتی حکم پر عملدرآمد کیا ہے،جس پرجسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے،لیکن اقلیت کسی قانون کے تحت بھی خود کو اکثریت میں ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی ۔ کھلی عدالت میں 5 ججوںنے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے ہیں،جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے فاضل وکیل کو کہاکہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیاہے، مختصر حکم نامہ میں لکھا ہوا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحیٰ آفریدی اورجسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں،فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ کیا اس مقدمہ سے متعلق جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے؟جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرکا ہے ؟اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے استفسار کیا کہ تفصیلی فیصلے کے اجراء بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے؟ تو انہوںنے جواب دیا کہ 4/3 کے فیصلے سے متعلق الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لی ہیں،جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ دونوں ججوں کا احترام ہے، مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا ہے، قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے، جسٹس سیدمنصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا فیصلہ اقلیتی ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ خفیہ رپورٹوں میں بھکر اورمیانوالی میں ٹی ٹی پی، سندھو دیش اور مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی ہے۔ الیکشن کے لیے ہم نے 4 لاکھ 12 ہزار کی نفری مانگی ہے جبکہ 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے،جس پرجسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں ، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیاہے،انہوںنے سوال اٹھایا کہ کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہیں، دوسری جانب آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھے تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی ؟چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے علاہ بھی بہت سارے سوالات ہیں۔انہوںنے فاضل وکیل کو کہا کہ آپ جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں،پہلے اپنے دلائل دیں پھر ان سوالوں کے جوابات دیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 20 ارب روپے کے اخراجات کا ذکر ہے لیکن کل عدالت کو 25 ارب روپے کا بتایا گیا ہے ،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ 5 ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کے لیے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہوئی ہے،تو فاضل وکیل نے کہا کہ وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سے جواب دے سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں منعقد ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کے لیے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔جس پر اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر کہا کہ انتخابات کے لیے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے،تاہم اگر انتخابات الگ الگ منعقد ہوں تو بیس ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو بتایا گیا تھا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر الیکشن کو سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہو گا، سپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا ہے کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا ہے، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بھی بتایاہے کہ خیبرپختونخوا میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں،انہوںنے مزید کہا کہ خفیہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں، خفیہ رپورٹوں کے مطابق خیبرپختونخوا ء کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں،سال 2023 میں صوبہ خیبر پختونخواء میں سکیورٹی کے 443 تھریٹس(دھمکیاں) موصول ہوئی ہیں، خیبرپختونخوا میں رواں سال دہشتگردی کے 80 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں170 شہادتیں ہوئی ہیں، خفیہ رپورٹوں کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے،انہوںنے کہاکہ رپورٹوں کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثر بھی زیادہ ہے، خیبرپختونخوا کے 80 فیصد علاقوں میں سکیورٹی کے خطرات زیادہ ہیں، خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹیں دی ہیں کہ کے پی میں افغانستان سے دہشت گرد داخل ہوچکے ہیں،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ نے یہ باتیں صدر مملکت کے علم میں لائی، اگر صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے۔ صدر مملکت نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ان علاقوں کو کلیئر کرنے میں 6 ماہ لگیں گے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیسی بات کر رہے ہیں؟ 2 اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں،وہ نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو دہشت گردی کے مسئلہ کا تو سامنا ہے، 20 سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات منعقد ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں 3 دفعہ الیکشن ہوئے تھے حالانکہ 90 کی دہائی میں ملک میں فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی،آئین میں 58/2 بی کو استعما ل کرتے ہوئے ہر تین سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر سمیت دیگر اداروںکی رپورٹیں درست ہوں گی، دہشت گردی کے خطرات اپنی جگہ،لیکن آئین پر عملدرآمد تو لازمی ہے، الیکشن کمیشن تو کہہ رہا ہے کہ اگر ہمیں مطلوبہ سہولیات مل جائیں تو ہم تیار ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کو یہ حقائق بتائے بغیر آپ نے تاریخیں تجویز کر دیں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر الیکشن کمیشن کو خط نہیں لکھا تھا، صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیاتھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، الیکشن کمیشن کا مسئلہ فنڈزکی دستیابی کا بھی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف اور حکومت کو سیاسی ماحول ٹھنڈا رکھنے کا کہا تھا، موجودہ سیاسی ماحول میں پرامن انتخابات نہیں ہوسکتے ہیں، ہمیں نہ تو علی ظفر اور نہ ہی اٹارنی جنرل نے اس بارے جواب دیاہے، ہم کیس آگے بڑھانے سے پہلے دونوں فر یقین سے یقین دہانی چاہتے ہیں،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، 2 اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، الیکشن منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،لیکن یہ الیکشن کمیشن شیڈیول جاری کرتاہے، اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے۔جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہاگر ہمیں مطلوبہ فنڈز اور اداروں سے معاونت مل جائے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلنے رہنے دینا ہے، سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی ہے، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لیکر آگاہ کرنے کا کہا تھا، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتخابات پر امن نہیں ہوسکتے، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کوکم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی ہے ،جس پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہوں۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ یقین دہانی کس کی جانب سے ہے؟تو انہوںنے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے،انہوں نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قوتوں کے درمیان تنائو سے دیگر ریاستی ادارے متاثر ہو رہے ہیں، عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، ادارے بول نہیں سکتے ہیں ِاس لیے خاموش رہ کر سنتے رہتے ہیں، شفاف الیکشن کے لیے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا ہے، فیئر پلے ہو تو سپورٹس مین سامنے آتے ہیں ، جنگجو نہیں، غصے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے،حکومت کی جانب سے کون یقین دہانی کروائے گا؟ الیکشن کے انعقاد کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتی ہیں، 2 وزرائے اعلی نے اچھا یا برا اپنا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیاہے، آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھانا پڑتے ہیں۔وزارت داخلہ اور دفاع سے حالات کی بہتری کے لیے کم سے کم وقت پوچھ کر بتائیں، 21 مارچ کو ایک بریگیڈیئر کی شہادت ہوئی، پشاور مسجد میں دھماکا ہوا، انتخابات 2 دن بھی ہو سکتے ہیں، اگر ایک دن ممکن نہ ہوںتو،انہوںنے کہا کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کی وجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیاہے، خیبرپختونخوا ء میں الیکشن کی تاریخ دے کر واپس لے لی گئی ہے، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی تھی۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری سے بھاگ رہا ہے؟تو فاضل وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ الیکشن پروگرام کے تحت تاریخ آگے کر سکے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ انتخابات منعقدکروانے کا اختیار کس دن سے شروع ہوتا ہے؟ کیاانتخابی تاریخ مقرر ہونے سے اختیار شروع ہوتا ہے۔جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ اگر تاریخ مقرر ہوجائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، ہم نے صرف پولنگ کا دن ہی نہیں پورا الیکشن پروگرام موخر کیا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کرسکتا ہے تاریخ نہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ گورنر اور صدر کی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں واضح درج ہے کہ پولنگ کی تاریخ کون دے گا؟ کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آئین سے بالا تر ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی ہے؟جس پر فاضل وکیل نے جواب دیا کہ 6 ماہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد 8 اکتوبر کو پہلا اتوار بنتا ہے۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ صدر کو تجویز کردہ تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کا دفاع کرنا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا ایسے الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پورے کرے گا؟ ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ نہیں دی ہے،جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ نگران حکومت نے گورنر کو تاریخ دینے کا کیوں نہیں کہا ؟تو انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کی معاونت کے لیے تیار ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت نے فوری اور جلد از جلد تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ کس بنیاد پر دی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں 20 حلقوں میں انتخاب منتخب حکومت نے کروائے تھے، 20 حلقوں کے انتخاب میں ایسے کتنے واقعات ہوئے تھے جن سے انتخابات متاثر ہوئے تھے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب حکومت اپنی حد تک الیکشن کمیشن کی معاونت کر سکتی ہے؟تو ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پولیس اہلکار مصروف ہیں اس لیے افواج کی تعیناتی کا کہا تھا۔عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔