جسٹس فائز عیسٰی کا حکم،نئی قانونی صورتحال،سوالات اٹھ گئے

30 مارچ ، 2023
عبدالقیوم صدیقی
اسلام آباد:جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس امین الدین خان کے اس عدالتی حکم کے بعد کہ جب تک سپریم کورٹ کے 184/3کے اختیار سماعت کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت رولز نہیں بن جاتے تب تک 184/3کے تحت مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جائے سے ایک نئی قانونی صورتحال نے جنم لیا ہے اور یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی کی وہ درخواست جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کرنے کو چیلنج کیا گیا ہے اور اس کی سماعت سپریم کورٹ کاپانچ رکنی بینچ کر رہا ہے کیا وہ بھی ملتوی ہو گی اور کیا سپریم کورٹ کے عدالتی حکم کی پابندی چیف جسٹس پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ اس بارے میں راقم نے مختلف قانونی ماہرین سے رائے طلب کی معاملے کی حساسیت کے باعث سئینر وکلاء نے نام ظاہر نہ کرنے پر راقم کو بتایا کہ جوڈیشل آرڈر کے ججز بھی پابند ہیں جب تک کہ وہ عدالتی فیصلہ عدالتی حکم ہی کے ذریعے واپس یا معطل نہ کر دیا جائے ، اس حوالے سے سینئر وکلاء نے ایک ایسی ہی صورت حال کا حوالہ دیا وکلاء کا کہنا تھا کہ 1997میں جب سجاد ولی شاہ چیف جسٹس پاکستان تھے کوئٹہ میں جسٹس سجاد علی شاہ کے حوالے سے جوڈیشل آرڈر جاری کیا ان ججز میں جسٹس ارشاد حسن خان ، جسٹس خلیل الرحمان اور جسٹس ناصر اسلم زاہد شامل تھے اس جوڈیشل آرڈر کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک بینچ بنا کر معطل کرنا چاہا تھا تاہم بعد ازاں پیدا ہونے والے حالات کے باعث جسٹس سجاد علی شاہ کو جانا پڑا تھا قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایک مثال موجود ہے جب جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال مندوخیل نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کی درخواست پر ایک سو چوراسی تین کے تحت حکم صادر کیا تو موجودہ چیف جسٹس عمر عطابندیال جو اس وقت قائم مقام چیف جسٹس تھے انہوں نے ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دے کر اس حکم کو معطل کیا اور بعد ازاں اس بینچ نے ازخود نوٹس کے اختیارات چیف جسٹس پاکستان کی زات میں مرکوز کر دئیے تھے قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک سو چوراسی تین کے اختیار سماعت کے رولز بننے تک مقدمات ملتوی کرنے کا حکم دینے والے ایک جج جسٹس امین الدین خان بھی پانچ رکنی بینچ کا حصہ ہیں اس کے باعث یہ معاملہ مزید پیچیدگی کا شکار ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ہی فیصلے کے حوالے سے کیا موقف اختیار کریں گے ۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ جوڈیشل سائیڈ پر جاری کیا گیا حکم کے چیف جسٹس بھی پابند ہیں کیونکہ چیف جسٹس بھی دیگر ججوں جیسے ہی ہیں ان کو صرف انتظامی اختیارات کے باعث ایک بلند درجہ حاصل ہے۔