نواز یا ترین کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کی بات غلط ، خواجہ آصف

30 مارچ ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگوکرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نواز شریف یا جہانگیر ترین کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کی بات غلط ہے،ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ آرٹیکل 184/3آئینی شق ہے ، آئین کی تمام ایسی شقوں کی ریمیڈی آئین میں ہی فراہم کی گئی ہے،ماہر قانون صلاح الدین احمد نے کہا کہ 184/3کے تحت اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف یا جہانگیر ترین کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کی بات غلط ہے، نواز شریف اور جہانگیر ترین کو قانونی عمل سے محروم کیا گیا،ہم ان کو ریلیف نہیں دے رہے معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ رہے ہیں، صرف نواز شریف اور جہانگیر ترین ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگوں کو ریلیف ملے گا، نواز شریف اور جہانگیر ترین کا فیصلہ بحال رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ابھی بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے، ہم اختیار پارلیمنٹ کے پاس نہیں لے کر آرہے اختیار عدالت کے پاس ہے،عدلیہ کا اختیار لینے کی کوشش کبھی کی ہے نہ کریں گے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ تیس دن کے اندر اپیل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کا ہوگا، موجودہ چیف جسٹس نے تاحیات نااہلی کو خود ڈریکونین قانون قرار دیا تھا،چیف جسٹس سے درخواست کریں گے ان اپیلوں کو سننے کیلئے بنچ بنادیں، اپیلوں پر عدالت کا جو فیصلہ ہوگا اس کو من و عن تسلیم کریں گے، قانون میں کوئی ایسی بات نہیں کہ طاقت مقننہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے، عدلیہ کے تمام تر اختیارات ابھی بھی انہی کے پاس ہیں، عدلیہ کی ٹیرٹری ٹریس پاس کرنے کی نہ کوشش کی ہے نہ کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے بھی مقدمات میں قانون کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں، ہم جامع بات چیت کیلئے بالکل تیار ہیں،عمران خان کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے ان کی انڈرٹیکنگ کی ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں ہے،عمران خان اپنی کسی بات پر چوبیس گھنٹے سے زیادہ کھڑے نہیں رہتے، کیا ہم اپنا سارا سیاسی سرمایہ عمران خان جیسے بے اعتبار شخص کی انڈرٹیکنگ پر لگادیں۔ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ آرٹیکل 184/3آئینی شق ہے ، آئین کی تمام ایسی شقوں کی ریمیڈی آئین میں ہی فراہم کی گئی ہے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ آئینی ریمیڈی کی جگہ قانون سازی کے ذریعہ ترمیم لائی گئی ہے، آرٹیکل 191پروسیجر اور پریکٹس کی بات کرتا ہے نیا حکومتی قانون بھی یہی بات کررہا ہے، یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کہیں اوور لیپنگ تو نہیں ہے۔ماہر قانون صلاح الدین احمد نے کہا کہ 184/3کے تحت اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، ایسی دو مثالیں ہیں جہاں کسی آئینی اختیار کے خلاف اپیل کا حق قانون سازی کے ذریعہ دیا گیا ہے، آرٹیکل 191ء میں ہائیکورٹس کے پاس رِٹ پاس کرنے کی پاور ہے، سنگل جج جب رٹ پاس کرتا ہے تو وہ اسی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے پاس جاتا ہے، وہ اپیل لاء ریفارمز آرڈیننس کے تحت قائم کی گئی ہے جو sub constitutional legislation ہے، اس کی دوسری مثال توہین عدالت آرڈیننس کا سیکشن 19ہے، سپریم کورٹ کسی کو توہین عدالت کیس میں سزا سناتی ہے تو اس کی اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں کی جاتی ہے یہ بھی ایک sub constitutional legislation ہے۔ صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ 184/3کے تحت ماضی کے فیصلوں کیخلاف آج اپیل کا حق دینا بہت پیچیدہ سوال ہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق اہم قانون ترمیم کے ساتھ قومی اسمبلی میں منظور کرلیا گیا، اس میں نہ صرف بنچوں کی تشکیل کا معاملہ بلکہ سوموٹو اختیارات سے متعلق بھی اہم قانون سازی شامل ہے، سوموٹو اختیارات اور اس کے تحت خصوصی بنچز بنانے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کا بھی اہم فیصلہ سامنے آیا ہے۔