مفاہمت کی سیاست۔وقت کا تقاضا

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
06 اپریل ، 2023
خطے کے دو کٹرنظریاتی حریف ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین دوریاں ختم کرنے پر اتفاق رواں صدی کا بہت بڑاواقعہ ہے جس کے بہت زیادہ دوررس نتائج عالمی منظرنامے پر مرتب ہونگے ،اس سلسلے میں دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت چین کی کامیاب سفارتکاری کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ماضی کی دو بڑی مخالف قوتوں کواپنی سرزمین میں ایک میز پر بٹھاکر اختلافات دور کرکے تعاون کا ہاتھ تھامنے پر آمادہ کیااور اب وہ روس یوکرائن جنگ بندی کیلئے سرگرم ہے۔ چینی صدر شی چن پنگ نے گیارہ سال قبل حکمراں جماعت کے سیکرٹری جنرل کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے بعد چائنیز ڈریم کی اصطلاح پیش کی تھی ،بعد ازاں چین کی مختلف سرکاری دستاویزات میں چائنیز ڈریم کو قومی ترقی کا ماڈل قرار دیتے ہوئے تشریح کی جاتی رہی ہے کہ چین کے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کیلئے خواب دیکھنے، اپنے خواب کو پورا کرنے کیلئے انتھک جدوجہد کرنی چاہئے اورملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے، چینی ڈریم کے تحت چینی صدرنے 2021ء میںچینی حکمراں جماعت کی سو سالہ سالگرہ پرچینی روایتی معاشرے کو ایک اعتدال پسند سوسائٹی میں ڈھالنے کا ہدف حاصل کرلیا ہے اور اب وہ عوامی جمہوریہ چین کی سو سالہ سالگرہ 2049ء تک چین کو دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ماڈرن ریاست بنانے کیلئے پُرعزم ہیں جس میںچین کے دیگر عالمی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات اوراقتصادی تعاون کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں آگے بڑھنے کیلئے ہر قوم کو ایک ڈریم کی ضرورت ہوتی ہے، آج امریکہ اگر واحد سپرپاورہے تو اسکے پیچھے امریکی قوم کا امریکن ڈریم ہے ۔ تاریخی طور پر امریکن ڈریم کی اصطلاح 1931ء میں منظرعام پر آئی جب عالمی سطح پر برطانوی سامراج کا طوطی بولتا تھا۔امریکن ڈریم کے تحت امریکی قوم کی کچھ منفرد خصوصیات وضع کی گئی ہیں جن میں جمہوری حقوق، شخصی آزادی، مساوات،انسانی حقوق کا تحفظ سمیت ہر ایک کیلئے محنت کرکے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع کی فراہمی شامل ہیں، امریکی ڈریم کو امریکہ کے اعلانِ آزادی سے بھی منسلک کیا جاتا ہے جس میں واضح کیا گیا تھا کہ دنیا کا ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے اپنی زندگی ہنسی خوشی بسرکرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔امریکن ڈریم کے تحت دنیا بھر کے قابل انسانوں کیلئے امریکہ کے دروازے کھول دیے گئے اور امریکہ بہت جلد دنیا کی طاقتور ترین سپرپاور بن گیا۔ ایسا ہی ایک خواب ہمارے بڑوں نے بھی گزشتہ صدی کے دوران دیکھا تھا جب ہمارا ملک برطانوی سامراج کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، امریکی خواب سے ایک سال قبل1930ء میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آبادمیں ایک خودمختار مملکت قائم کرنے کا ڈریم پیش کیا، قائداعظم کی زیرقیادت تحریک پاکستان میں جوگندراناتھ منڈل سمیت غیرمسلم ہندو لیڈر بھی تھے جو یہ خواب دیکھتے تھے کہ پاکستان کرہ ارض پر ایک ایسی مثالی ریاست بن کر اُبھرے گاجہاں ہر شہری کو اقلیت اکثریت کی تفریق سے بالاتر ہوکر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی یکساں آزادی میسر ہوگی۔ افسوس، علامہ اقبال کا خواب پورا کرنے کے صرف ایک سال بعد قائداعظم اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے اور قیام پاکستان کے ابتدائی سال سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بحران اور ناقص ریاستی پالیسیوں کی نذر ہوگئے۔ افسوس کہ پاکستان 77سال بعد بھی اپنے پیروںپر کھڑا نہیں ہوسکا ہے جبکہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معاشی قوت بن گیا ہے، ہمارا سابقہ مشرقی حصہ بنگلہ دیش بھی اقتصادی دوڑ میں ہم سے کہیں آگےہے۔تاہم آج ہمیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ ہماری ملکی تاریخ میں قائداعظم کے بعد ایک ایسا عظیم جمہوری لیڈر بھی گزرا ہے جس نے پاکستانی قوم کو اپنے خواب پورا کرنے کیلئے واضح روڈ میپ دیا،میں نے گزشتہ دنوں 4اپریل کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر قومی اسمبلی میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو صاحب نے قوم کوتہتر کے متفقہ آئین کا تحفہ دیا،بھٹو صاحب نے پڑوسی ملک کے خطے میں بالادستی کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے اعلان کیا کہ ہزار سال گھانس کھائیںگے لیکن ایٹم بم بنائیں گے، وقت نے ثابت کردیا کہ بھٹو کے بروقت اور دوراندیش فیصلے کی بدولت آج ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہوچکا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج مسائل میں جکڑی ہماری قوم کو ایک نئے پاکستانی ڈریم کی ضرورت ہے اور یہ خواب وہی سیاسی قیادت پورا کرسکتی ہے جو عوام کے مسائل کی اہمیت کو سمجھتی ہو۔ چین ہو یا امریکہ، دنیا کے ہر ملک نے اپنے عوام کو یکساں حقوق دیکر ترقی کا سفر طے کیا ہے، آج ہمارے ملک کو مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)