قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے

اداریہ
09 اپریل ، 2023

وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اکتالیسویں اجلاس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے غور وفکر کا محور پچھلے چند برسوں کے دوران معاشرے میں رونما ہونے والی تشویشناک تقسیم و تفریق، اشتعال انگیزی و منافرت، انتہاپسندی و تشدد ، افہام و تفہیم کا فقدان اور نئے سرے سے ابھرنے والی دہشت گردی کی لہر کے اسباب اور ان کے ازالے کی تدابیر تھیں۔ مذکورۂ بالا عوامل قومی یکجہتی کیلئے جس قدر تباہ کن ہیں، اس کا مشاہدہ اور تجربہ پاکستان کا ہر فرد براہ راست کررہاہے اور اس صورت حال کو جلد از جلد مثبت طور پر تبدیل کرنا آج ہماری سب سے بڑی قومی ضرورت ہے ۔ جس سنگین معاشی چیلنج سے پاکستان دوچار ہے، اس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے بھی ضروری ہے کہ ان منفی رجحانات کو مثبت رویوں سے بدلا جائے۔ ان مقاصد کی خاطر اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ سفارتی، سلامتی، معاشی اور سماجی محاذ پر ہر قسم کی اور مختلف انداز میں ہونے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ کمیٹی کے شرکاء نے بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی، معاشرے میں تقسیم اور در پردہ اہداف کی آڑ میں ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف بیرونی اسپانسرڈ زہریلا پروپیگنڈا سوشل میڈیا پرپھیلانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہر کو کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کے لیے رکھے گئے نرم گوشے اور مضبوط سوچ کے بغیر بنائی گئی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جوکہ عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا روک ٹوک واپس آنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتمادسازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کر دیاگیا، واپس آنے والے اِن خطرناک دہشت گردوں نے افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں سے مدد ملنے پر ملک میں بے شمار قربانیوں اور مسلسل کوششوں سے حاصل کیے گئے امن واستحکام کا شیرازہ بکھیر دیا۔ اعلامیے کے مطابق اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے دہشت گردی سے نمٹنے کا عزم کرتے ہوئے انتہاپسندی کے سدباب کیلئے 15 روز میں نیشنل ایکشن پلان پر دوبارہ عمل درآمد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں اس امر پراتفاق کیا گیا کہ نئے جامع آپریشنز شروع کیے جائیں گے۔اس مقصد کیلئے تشکیل دی گئی کمیٹی پالیسی پر عمل درآمد اور پیرامیٹرز طے کرنے کیلئے دو ہفتوں میں تجاویز پیش کرے گی۔ اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر، ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابر، نیول چیف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی کابینہ کے اراکین شامل تھے۔ اعلامیے میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا کوئی ذکر نہیں جس کی وجہ وفاقی وزیر اطلاعات کے بقول یہ ہے کہ یہ معاملہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں تھا جبکہ حکومت اور پارلیمنٹ پہلے ہی اس ضمن میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کو مسترد کرچکے ہیں۔خود عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان میں اس معاملے پر جو اختلاف ہے وہ گزشتہ روز جسٹس اطہر من اللہ کے مفصل اختلافی نوٹ کی شکل میں منظر عام پر آچکا ہے۔ انتخابات کے انعقاد میں سیکوریٹی اہلکاروں کی کمیابی، مالی وسائل کے فقدان اور دہشت گردی کے خطرات جیسے اسباب کا حائل ہونا حقائق کے منافی نہیں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ حکومت و اپوزیشن اس معاملے میں کسی متفقہ حل تک پہنچنے کی خاطر بات چیت کا راستہ اپنائیں اور عدلیہ بھی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ ملک میں سیاسی انتشار کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ، اس کا کوئی حل تلاش کرلیا جائے تو دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنا بھی آسان ہوجائے گا۔