مہمند ڈیم منصوبے کی فنڈنگ

اداریہ
09 اپریل ، 2023

ملک کو لاحق توانائی کے بحران کی بڑی وجہ کم مالی وسائل اور بجلی کی پیداوار کا بڑا دارومدار تیل و گیس جیسے مہنگے ترین ذرائع پر ہونا ہے۔قیام پاکستان کے اوائل میں طے پاگیا تھا کہ دریاؤں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے انکے پانی سے بجلی بنانے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ زرعی رقبہ زیرکاشت لایا جائے گا۔ اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ 75 برس کا عرصہ سیاسی کھینچاتانی کی نذر ہوگیا اور پائیدار ترقی کے سارے خواب ادھورے رہ گئے۔ 2021 میں بجلی کی کل پیداوار کا محض 27 اعشاریہ آٹھ فیصد حصہ جو پانی سے حاصل ہورہا تھا ، آج مزید کم ہوکر 23اعشاریہ سات فیصد پر آگیا ہے جس کا بڑا دارومدار منگلا اور تربیلا ڈیم پر ہے ۔ دوسرے نمبر پر درمیانے درجے کے منصوبے آتے ہیں جن میں نیلم جہلم گذشتہ برس سے پیداوار نہیں دے رہا ۔ زیر تعمیر منصوبوں میں داسو پراجیکٹ قابل ذکر ہے جس پر کامیابی سے کام جاری ہے ۔اس کے بعد مہمند ڈیم منصوبہ جو فنڈز نہ ہونے کے باعث آگے نہیں بڑھ رہا تھا ، سعودی فنڈ برائے ترقی (ایس ڈی ایف) پروگرام کے تحت اس کے چیف ایگزیگٹو آفیسر سلطان عبدالرحمان المرشد اور وفاقی سیکرٹری کاظم نیاز نے جمعہ کے روز اسلام آباد میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کی موجودگی میں ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جسکے تحت پاکستان کو مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے 24 کروڑ ڈالر کا قرضہ دیا جائیگا۔ اس منصوبے سے ابتدائی طور پر 800 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں زراعت کیلئے 16ہزار ایکڑ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا جس سے 6773 ایکڑ رقبہ زیرکاشت آئیگا۔ اقتصادی سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں ہائیڈرل پاور کی استعداد 60 ہزار میگاواٹ ہے لیکن اس سے محض 16 فیصد بجلی حاصل ہورہی ہے جس سے پورا فائدہ اٹھائے بغیر سستی بجلی کا حصول اور صنعتی پہیہ رواں دواں رکھنا خواب ہی دکھائی دیتا ہے ۔ منصوبہ بندی کے اداروں کو اس پر بلا تاخیر پیشرفت کرنی چاہئے۔\