عدالت عظمیٰ کے سیاسی و عددی اعتبار سے متنازعہ فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی اپنی دم پہ کھڑی بھی ہوئی تو معلوم پڑا کہ اُس کی دم تو تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے ہاتھوں کب کی کٹ چکی ۔ 342 کے عوامی نمائندگان کے ہائوس میں عدلیہ کے فیصلے کے خلاف قرار داد کا بوجھ اٹھانے کو محض 42اراکین کی حمایت حاصل ہوسکی۔ عدالتی فیصلے کے آگے پارلیمنٹ کی بالادستی چلنی ہوتی تو دو وزرائے اعظم عدلیہ کے ہاتھوں اپنا عہدہ نہ گنوا بیٹھتے۔ لگتا ہے قومی اسمبلی نے وزیراعظم اور اس کی ان گنت کابینہ کو توہین عدالت سے بچانےکیلئےپارلیمانی حفظ ماتقدم کا اہتمام کرنے کی نحیف کوشش کی ہے۔ ابھی تین پیاروں کے پنجاب میں 90 روز سے تجاوز کرتے ہوئے انتخابات کے شیڈول کے اعلان کی گونج کم نہیں ہوئی تھی کہ سات ججوں میں سے چوتھے جج اطہر من اللہ کے انفرادی فیصلے میں چار ججوں کے اکثریتی فیصلے پہ اصرار سے تین رکنی بینچ کی تین / دو کی اکثریت کی ضد کے پلے بچا کیا ہے؟ عدلیہ میں کُو تو بیچارے چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہی کے خلاف ہوسکا تھا۔ اب کی بار تو کُو اور کائونٹر کُو تھمنے میں نہیں آرہے۔ سیاست میں کودنے اور انتظامیہ کو زچ کرنے کا جو شوق چیف جسٹس افتخار چوہدری، ثاقب نثار اور گلزار احمد کے سر چڑھ کر بولا تھا، وہ موجودہ چیف جسٹس کے گلے پڑگیا ہے۔ جج صاحبان اور ان کے مختلف بنچ اپنے متضاد فیصلوں سے جو گولہ باری کررہے ہیں اس سے بڑھ کر انصاف کی عصمت دری اورکیا ہوگی۔ پہلے نو رکنی بنچ بنا، پھر سات رکنی بنچ سے دو اراکین مسنگ پرسنز بنادئیے گئے اور پھر پانچ رکنی بنچ اپنی طلسماتی تشکیل کے بعد تحلیل ہوکر تین رکنی رہ گیا جس میں وہ معزز جج صاحب بھی شامل تھے جو 9رکنی بنچ میں شمولیت سے معذرت کرچکے تھے۔ بیچ میں ایک اور تین رکنی بنچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک سوموٹو کیس کی شنوائی کرتے ہوئے تمام سوموٹو کیسزپر تب تک کارروائی روکنے کا حکم صادر کردیا جب تک عدالتِ عظمیٰ اپنے چال چلن کے ضوابط طے نہیں کرلیتی۔ عجب ماجرا ہے کہ وزیراعظم کو تو عدلیہ نے اپنے فیصلوں کیلئے کابینہ کا پابند کردیا ہے، لیکن وہ برادر ججوں کے مساوی استحقاق کے باوجود چیف جسٹس کو کسی اجتماعی بندھن میں باندھنے پہ راضی نہیں ہوسکی۔ اب برادر ججز بھی ’’ون مین شو‘‘ کا نام لے کر تمسخر اُڑارہے ہیں۔ پھر کیا تھا ایک بیوروکریٹ رجسٹرار کے سرکلر سے تین رکنی بنچ کے فیصلے کی ہوا نکال دی گئی۔ اس سے پہلے کہ کائونٹر کُو ہوجاتا چیف جسٹس نے ایک چھ رکنی بنچ کے ذریعے قاضی فائز عیسیٰ کے بنچ کے امتناعی حکم کو فقط سات منٹوں میں اُڑادیا۔ جوابی وار آیا بھی ہے تو جسٹس اطہر من اللہ کے انفرادی فیصلے کی صورت کہ اصلی سات رکنی بنچ کا فیصلہ 4/3 کی اکثریت سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے حوالے سے لئے گئے سوموٹو اور پی ٹی آئی کی درخواست کو مسترد کرنے کا تھا۔ اب سات رکنی بنچ نہ کبھی بیٹھے گا کہ 3/2 یا 4/3 کی عددی الجھن کا حل پیش کرسکے اور نہ چیف جسٹس فل کورٹ بٹھانے کا خطرہ مول لینے کو تیار ہوں گے۔ سیاسی معاملات میں مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرتے ہوئے خود عدلیہ تقسیم ہوکررہ گئی ہے اور اسے اب باہمی جنگ میں صلح صفائی کرانے کیلئے کچھ باعزت طور پر ریٹائر ہونے والے ججوں کی مصالحانہ خدمات درکار ہیں۔ اس سے پہلے کہ سپریم کورٹ ٹوٹ جائے اسے حفظ ماتقدم کے طور پر فل کورٹ تشکیل دے دینی چاہئے تاکہ اپنے گناہوں کے ازالے کا بوجھ بانٹا جاسکے۔ ویسے یہ پوچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی 22-7-22 کی رولنگ جس کے نتیجہ میں چوہدری پرویز الہٰی انتخاب ہار گئے تھے اسے 26-7-22کو اُلٹانےکیلئے تین پیاروں کی اکثریت نے آئین کی شق 63-a ہی کی صاف منشا ہی کو اُلٹ دیا جسے دو اقلیتی ججوں نے آئین کو لکھنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے رد کردیا تھا۔
پھر کیا تھا بیچاری بھان متی کی حکومت نے دو روز بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 28جولائی کے اجلاس میں چیف جسٹس کے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں لانے کی کوشش کو ناکام بنادیا۔ پھر جانے کیا کیا تکرار تھی کہ جو نہ ہوئی۔ لیکن جب چیف جسٹس نے وزیراعظم کو آنکھیں دکھائیں تو 24اکتوبر کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف منہ کے بل گر پڑے اور لاہور ہائیکورٹ کے چوتھے نمبر کے جج شاہد وحید اور سندھ ہائیکورٹ کے بھی چوتھے نمبر کے جج حسن اظہر رضوی 5/4کی اکثریت سے سپریم کورٹ کے جج تجویز کردئیے گئے اور انیسویں ترمیم کے بعد دو طرفہ پارلیمانی کمیٹی کے تو پہلے ہی پرکاٹ دئیے گئے تھے، لہٰذا پارلیمانی کمیٹی نے بھی انگوٹھا لگا کر چیف جسٹس کی سنیارٹی کے اصول کی پامالی کے حکمنامے کی تصدیق کردی اور بیچارے پاپولر قانون دان اعظم نذیر تارڑ کو وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کے وکلا کے آزاد گروپ جو عاصمہ جہانگیر گروپ کہلاتا ہے کو چار دن بعد 28اکتوبر کو سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں شکست ہوگئی۔ سپریم کورٹ میں بھرتیوں کے غیر اصولی نظام، چیف جسٹسز صاحبان کی حد سے بڑھی ہوئی انتظامی امور میں مداخلت، عدلیہ کی اپنے ہی ہاتھوں بے توقیری اور سپریم کورٹ میں پنجابی ججوں کی بھرمار کے باعث پھر سے عدلیہ کی اصلاحات کا معاملہ زور و شور سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 8جج پنجاب سے، 3جج سندھ سے، 2جج بلوچستان سے اور دو جج پختونخوا سے ہیں جو چھوٹے صوبوں سے زیادتی ہے۔اس لئے ایک تو انیسویں ترمیم ختم کر کے اٹھارہویں ترمیم میں دی گئی ججوں کے انتخاب کی اسکیم بحال کرنا ہوگی اور دوسرا ایک وفاقی نظام میں صحیح معنوں میں ایک آئینی فیڈرل کورٹ کے قیام کی ضرورت ہے۔
سیاسی بحران کا جو عدالتی حل ڈھونڈا گیا تھا وہ سب کے گلے پڑ گیا ہے۔ اب دو ہی راستے ہیں یا تو فل کورٹ بیٹھے اور سیاسی جماعتوں کو بٹھا کر کوئی متفقہ راہ نکالے۔ یا پھر سیاسی جماعتیں بیٹھ کر آئندہ انتخابات کے حوالے سے ایک نئے میثاق جمہوریت اور انتخابی فریم ورک پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا کریں اور اسے پارلیمنٹ سے آئینی و قانونی جواز فراہم کرنےکیلئے متفقہ قانون سازی کریں۔ آئندہ انتخابات پہ اتفاق رائے نہ ہوا تو سمجھئے ملک انارکی کی لپیٹ میں آجائے گا۔
مزید خبریں
-
پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں باہمی اختلافات کا آغاز اگرچہ اس کی ابتدا سے ہی میں سامنے آنے لگا تھا لیکن جب...
-
خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت ماضی کی روایات سے ہٹ کر اپنی توجہ جنوبی پنجاب پربھی دے رہی...
-
جا پہنچتا ہے جابجا اُڑ کرفاصلے یُوں عبور ہوتے ہیں جھوٹ کے پائوں تو نہیں ہوتے جھوٹ کے پَر ضرور ہوتے ہیں
-
نفسیاتی ……مبشر علی زیدیکل میں نے ایک تقریب میں عجیب نفسیاتی بندہ دیکھا، ڈوڈو نے بتایا۔کیا وہ اپنے آپ سے...
-
زندگی کی جو سڑک ہمیں بظاہر خالی دکھائی دیتی ہے وہ بھی ایک ایسے ہجوم سے بھری ہوتی ہے جو ہماری ظاہری آنکھوں سے...
-
جب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے تو یونہی یاد آیا...
-
یہی ہونا تھا ۔جس خدشے کا اظہار انہی صفحات میں پہلے ہی یہ عاجز کرچکا ہے کہ نئے امریکی صدر کے عزائم کچھ اچھے نظر...
-
عقل اور عشق کی کشمکش ہماری زندگی کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ جب علامہ اقبال جیسے شاعر نے کہا کہ بے خطر کود پڑا...