سر رہ گزر

پروفیسر سید اسرار بخاری
09 اپریل ، 2023
اندھی عقیدت بے جا مروت
اپنے وطن کی 75 سالہ تاریخ میں ہر سطح پر ہم نے اندھی عقیدت اور بے جامروت کے باعث نقصانات اٹھائے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پوری قوم آج بھی متوازن نہیں، مجموعی طور پر مزاج میں شائستگی ہے نہ رہنما شناسی، ذرا سی چالاکی اور کرشمہ سازی دیکھ کر نہایت گہرائی تک متاثر ہو جاتی ہے۔ صرف گیٹ اَپ دیکھ ہم کسی کو بھی غوث ، قطب قرار دے دیتے ہیں،یہی حال سیاست میں بھی ہے۔ اپنے ووٹ کی قدر جاننے کا ادراک ہوتا تو آج ہمارے حکمران چاند سورج ہوتے، بہرحال پھر بھی غنیمت ہے کہ ملک چل رہا ہے، مہنگائی بھی ہمراہ ہے، اگر سیاسی میدان میں قومی اتحاد اور ملکی مفاد کا خیال رہا تو یہ بحران ختم ہو جائیں گے۔ ہم اگرفرداً فرداً اجتماعی مفاد کے لئے آگے بڑھیں، ذاتی دشمنی نہ پالیں تو فروعی اختلافات ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ہر پاکستانی ہر فیصلے سے پہلے ملک کے قانون کو پیش نظر رکھے تو جرم سرزد نہ ہو، انسان انتہا پسندی اور انتقام پرستی کے ہاتھوں پاتال میں چلا جاتا ہے۔ انسانوں سے عقیدت و مروت ضرور کریں مگر اندھا دھند پیار ہو یا نفرت نقصان دہ ہے، ایک بیماری پرستش ہے اس کے باعث انسان گدھے کو گھوڑا اور گھوڑے کو گدھا سمجھ بیٹھتا ہے۔ شعور حدود و قیود کا تقاضا کرتا ہے اور جو حدسے گزر جانے کا چلن اپناتا ہے اس کے پائوں کبھی ہموار زمین پر نہیں پڑتے اور جو تلاش حسن میں سرگرداں رہتا ہے وہ اسے پا لیتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ حسن سے امتیازی رویہ نہ رکھے۔ اعتدال ہی کا دامن مالا مال ہے، ہوس تو فقط ایک جال ہے۔
٭٭٭٭
مہنگائی اور روزہ داری
مہنگائی نے روزہ داری کو اور مشکل کر دیا، مگر روزہ داروں نے افطار کو اپنی بھوک پیاس سے سیر کردیا، روزہ رکھنا بندۂ مفلس کے لئے بے حساب ثواب کاباعث بنتا ہے کیونکہ وہ شدید مشکلات سے گزر کر پانی کے گھونٹ تک پہنچتا ہے، ہمارے ہاں روزے کا سامان بیچنے والے طویل عرصے سے اسے جمع کرکے ماہ صیام میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں تاکہ روزے کے ثواب اور ذخیرہ اندوزی کے عذاب میں اضافہ ہو جائے۔ چاہیے تھا کہ رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش ارزاں کر دی جائیں اگر ہمارے ہاں سیاسی استحکام ہوتا تو معیشت بھی مستحکم ہوتی اور یوں روزہ داروں کے روزوں کو تنگدستی اور مہنگائی تنگ نہ کر پاتی، روزہ بالعموم سفید پوش اور غریب لوگ رکھتے ہیں اور اس مرتبہ تو روزے اتنے مہنگے پڑے کہ آساں ہوگئے۔ ہمیں اس بات پر حیرانی ہوئی کہ بعض چینلز خواہ مخواہ میڈیا میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح اپنےصَوم و صَلٰوۃکو نامقبولیت کے دائرےمیں ڈال دیتے ہیں۔ یہ انداز بے انداز ہے، کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر چینل اجتماعی میڈیا کا حصہ بن کر اپنی اپنی راگنی الاپے۔
٭٭٭٭
دنیا اور اس کی زندگی
دنیا بنانے والے نے دنیا الگ اور اس کا سازو سامان جدا بنایا ہے جسے اس نے فقط ایک دھوکے سے تعبیر کیا ہے، اس لئے اس دنیا کو برا مت کہو اس کے اندر جو سامان عیش و نشاط ہے اس سے زیادہ دل نہ لگا ئو، بس اسے نہایت کم توجہی سے استعمال میں لائو، یہ نہیں کہ اسی کے ہو کر رہ جائو، یہاں اس کے کئی شاہکار ہیں اور لطف اٹھانے کا سامان بھی، مگر یوں آئو کہ جیسے جانے کے لئے، کیونکہ ابھی نہ جانے تمہیں کہاں کہاں سے گزرنا ہے، کہاں کہاں ٹھہرنا ہے، موت بھی ایک جگہ ہے جہاں سے چھلانگ لگا کر کسی اور جہاں میں کود جانا ہے، بہرحال اس زندگی کے سفر کا انجام نہیں، علامہ اقبالؒ نے صحیح فرمایا تھا،’’ کام اپنا ہے صبح و شام چلنا...چلنا چلنا ، مدام چلنا ‘‘۔ اس دنیا سے کامیاب جانا ہے تو اعتدال کا راستہ اختیار کرنا کہ ایک طرف کنواں ہے دوسری طرف کھائی ۔ اس سوچ کے ساتھ چلو کہ ؎
دنیا نے کسی کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے
کہ اس کا اس طرح سے چلنا ہی اس کی خوبی ہے، دنیا کو غلط انداز سے مصرف میں لانا اچھا نہیں، اس سے دنیا میں برا وقت گزارنے کا الزام بھی دنیا کو لگ جاتا ہے، یہ انداز بہتر ہے کہ؎
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوا خریدار نہیں ہوں
٭٭٭٭
بحران اپنی ہی پیداوار
o...جسٹس اطہر من اللہ: ملک سیاسی و آئینی بحران کے دہانے پر ہے۔
اگر یہ سیاسی و آئینی بحران کے دہانے پر نہ ہوتا تو معاشی زبوں حالی کا شکار نہ ہوتا۔
o...لیسکو کم از کم میرے قلم کی روشنی تو نہ چھینے میرا پتہ معلوم کرے اور اپنی کارکردگی کا منظر دیکھے، یہ نہ ہو کہ یہ منظر بڑا کرکے دکھاناپڑے اور لیسکو چھوٹا پڑ جائے۔
o...کوشش کر کہ کسی کا کام تیرے ہاتھوں نہ بگڑے۔
٭٭٭٭