وہ لاہور کہیں کھو گیا

واصف ناگی
09 اپریل ، 2023
(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت آخراس تاریخی حویلی کو کیوں تباہ کرنا چاہتی ہے؟ ہم کسی طور پر یہ نہیں کہہ رہے کہ اس کالج کو یہاں سے کہیں اور منتقل کر دیا جائے یا اس تعلیمی ادارے کو بند کردیا جائے۔ اندرون شہر کی بچیوں کے لئے یہ کالج ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ ان تنگ، تاریک گلیوں اور چند قدیم مکانات میں رہنے والی ان بچیوں کو گورنمنٹ فاطمہ جناح گرلز کالج زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ مگر دوسری طرف اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس قدیم عمارت میں صبح آٹھ بجے سے دوپہر تین بجے تک دو ہزار بچیاں،150 اساتذہ،عملے کے 100 دیگر ارکان ہر وقت اوپر نیچے آئیں گے، مختلف کمروں میں آمد و رفت جاری رہے گی تو یقیناً اس تاریخی عمارت کی توڑ پھوڑ ہوتی رہےگی۔ ہم خود اس کےگواہ ہیں آج سے چالیس برس قبل اس عمارت کی حالت بہتر تھی۔ اب یہ دیکھیں کہ اس حویلی کے باہر ہاتھی دروازے کے سامنے کئی چار سو سالہ قدیم کمرے تھے جو سارے کے سارے گرا دیے گئے یہ کہہ کر کہ عمارت مخدوش ہے۔ ارے بھائی اگر آپ اس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال اور مرمت پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کریں گے تو اس کی حالت روز بروز خراب اور خستہ ہی ہوگی۔ دوسری جانب حکومت نے کئی برس پہلے لاکھوں روپےخرچ کرکے یہاںپرنسپل کی رہائش گاہ بنائی جس میں کسی پرنسپل نے رہنا پسند نہ کیا۔ اب وہ پرنسپل آفس اور کلیریکل اسٹاف کے دفاتر بن چکے ہیں حالانکہ حویلی کے اندر بے شمار ایسے کمرے ہیںجہاں اس پرنسپل کی رہائش گاہ سے پہلے پرنسپل آفس، دیگرا سٹاف کے کمرے اور اساتذہ کے لئے اسٹاف روم تھا۔ ہمارے خیال میں حکومت کو چاہئے کہ اتوار کے دن اگر سیاحت کے شوقین حضرات کے لئے یہ حویلی (محل)کھول دی جائے اور اس کے لئے کافی مہنگا ٹکٹ لگا دیا جائے ،اس کی آمدنی سے عمارت کی دیکھ بھال کی جائے تو یہ تاریخی محل/ حویلی مزید کئی برس تک قائم رہ سکتی ہے۔ اس تاریخی حویلی کی دیکھ بھال اور مرمت کے لئےا سٹاف ہونا چاہئے، حکومت کو اس کے لئے خصوصی فنڈز دینے چاہئیں تاکہ اس تاریخی محل کا تعمیراتی حسن برقرار رہے۔ یہ ایک تاریخی ورثہ ہے جس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم تو حکومت کو مشورہ دیں گے کہ جن تاریخی عمارتوں میں آج بھی اسکول اور کالج ہیں، اتوار اور ہر تعطیل کے روز ان کو سیاحوں کے لئے کھولا جائے ، اس سے اچھی خاصی آمدنی ہو سکتی ہے۔ حکومت ان عمارتوں کو بچانے کے لئے فنڈز تو دے نہیں رہی البتہ اس طرح حاصل ہونے والی آمدنی سے یقیناً یہ تاریخی عمارتیں کچھ نہ کچھ محفوظ اور بہتر ہو جائیںگی۔
اس عمارت کو حویلی آصف جاہ کہیں یا حویلی دھیان سنگھ یا پھر جمعدار خوشحال سنگھ کا محل یا اس کو مغل عمارت کہیں، اندرون لاہور میں اس سے بڑی کوئی حویلی نہیں اور وکٹوریہ اسکول کی خوبصورتی اور اس عمارت کا فن تعمیر دونوں ہی منفرد اور بہترین ہے۔ حویلی دھیان سنگھ کی چھت سے شہر لاہور کا نظارہ بڑا دلفریب اور مسحور کن ہے۔ ہم تو اس حویلی کی ایک اور بلند ترین چھت پر چڑھنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو حویلی کے چوکیدار محمد خان نے منع کردیا کہ سر اوپر چھت پر جانا خطرے سے بالکل خالی نہیں۔ ہم جس جگہ کھڑے تھے وہاں بھی کوئی حفاظتی انتظام نہیں تھا۔ خیر ہم نے کچھ تصاویر وہاں پر بنائیں۔ کاش کسی حکومت کو عقل آجائے کہ یہ ایک تاریخی ورثہ ہے۔تاریخی اور قدیم عمارتوں کا تعلق اپنے دور کی تہذیب ، ثقافت اور فن تعمیر سے ہوتا ہے ، اس سلسلے میںکوئی تعصب نہیں ہونا چاہئے۔
ہمیںاس اتوار کو جانا تو لاہور کی پرانی گلیوں کی طرف تھا مگر اچانک ہماری بات گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اختر سندھو اور شعبہ نفسیات کے ہیڈ ڈاکٹر کاشف فیاض احمد سے ہوگئی اور ہم اس تاریخی عمارت کی طرف چلے گئے، جس کےبارے میں بہت کم لاہوریے جانتے ہیں ہم بھی کوئی چالیس برس بعد ادھر آئے تھے۔ کچھ پرانی یادیں اور کچھ موجودہ حالات دونوں ذہن میں رکھتے ہوئے ہم گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز کے خوبصورت کیمپس میں جا پہنچے۔ اس کالج کا اصل نام ڈی اے وی (دیونند اینگلو ویدک کالج) ہے۔ (انبالہ (ہریانہ) میں ڈی اے وی کالج انبالہ کے نام کے ساتھ لاہور لکھا ہوا ہے۔ اس کی دلچسپ تاریخ پھر بتائیں گے) کبھی دریائے راوی اس کالج کے بالکل قریب بہتا تھا۔ یہ لاہور کا واحد کالج ہے جس میں تین سمادھیاں، ایک گوردوارہ، مسجد اور 1947ء کے مہاجرین ابھی تک آباد ہیں۔ اس کالج کے احاطے میں بھگت سنگھ نے انگریز اے ایس جان سنڈرسن کو گولی ماری تھی، ان کے ساتھ شیو رام راج گرو، چندر شیکھر آزاد بھی تھے۔ آزاد نے ایک سکھ سپاہی کو گولی ماری تھی۔ بھگت سنگھ ایس ایس پی جیمز اسکارٹ کو مارنا چاہتا تھا مگر کسی نے ان کو غلط بتا دیا اور انہوں نے جان سنڈرسن جو کہ 21 سال کی عمر میں ایچ آر کا امتحان پاس کرکے آیا تھا، بھگت سنگھ نے اسے جیمز اسکارٹ سمجھ کر ڈی اے وی کالج (گورنمنٹ کالج سول لائنز) کے سائیکل اسٹینڈ میں برگد کے درخت کے نیچے گولی مار دی تھی۔ پھر یہ تینوں ڈی اے وی کالج کی کیمسٹری لیبارٹری میں چھپ گئے۔ بہرحال ان تینوں کو سکھ سپاہی کے قتل اور قانون ساز اسمبلی میں بم دھماکہ کرنے پر لاہور میں پھانسی دی گئی تھی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ڈی اے وی کالج (دیونند آیورویدک کالج) کے ساتھ دریائے راوی بہتا تھا اور ہمیں یاد ہے کہ ہم کسی زمانے میں گھوڑا اسپتال (یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز) کے پچھلی طرف کھیتوں سے دریائے راوی پر کشتی چلانے جایا کرتے تھے۔ یہ سارا علاقہ کھلے میدان اور لہلہاتے کھیتوں پر مشتمل تھا اور قدرتی برف بنانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ (جاری ہے)