پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو واپس ٹریک پر لانے کے لئےایک ایسے نئے عمرانی معاہدے ( سوشل کنٹریکٹ ) کی ضرورت ہے ، جس کے ذریعہ سارے اختیارات فوج سے سیاسی اداروں کو منتقل ہو سکیں ۔ عمران خان کی یہ تجویز خوش آئند ہے لیکن خود عمران خان اگر سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھنے سے اسی طرح انکار کرتے رہے تو نیا عمرانی معاہدہ کیسے ہو سکے گا ؟
اگر پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا انصاف کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تویہ حقیقت سامنے آئے گی کہ پاکستان کی سیاست کو گندا کرنے اور سیاسی اداروں کو کمزور کرنے میں سب سے زیادہ کردار عمران خان کا ہے ۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کوبلا ثبوت کرپٹ کہا اور ملک میں گالی کی سیاست کو رائج کیا ۔ اس سے غیر سیاسی قوتیں مضبوط ہوئیں ۔ عمران خان جن سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، انہوں نے پاکستان کے سیاسی اداروں کو مضبوط بنانے اور سویلین بالادستی کے لئےبہت کچھ کیا ہے ۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ عمران خان جن سیاسی قوتوں کو گالیاں دیتے ہیں ، انہوں نے آمرانہ قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔ انہوں نے سیاسی تحریکیں چلائی ہیں ۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے اپنے پیٹھ پر کوڑے کھائے ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں نے تختۂ دار کا سامنا کیا ہے۔ عمران خان چونکہ بنیادی جمہوری دھارے کا حصہ نہیں رہے ہیں ، اس لئے انہیں اندازہ نہیں ہے کہ سیاسی اداروں خصوصاً پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے ، عوام کے حق حکمرانی کے حصول اور سویلین بالادستی کے لئےان کے سیاسی مخالفین کس طرح آگ اور خون کا دریا عبور کرکے ملک کو یہاں تک لے آئے ہیں کہ کسی طالع آزما کے لئے جمہوریت پر شب خون مارنے کے راستے بند ہو چکے ہیں ۔
جن سیاسی قوتوں کے ساتھ عمران خان مذاکرات کرنے سے انکاری ہیں ، ان کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ 1973 ء کے دستور کی متفقہ منظوری ہے ۔ یہ سال دستور پاکستان کی سلور جوبلی کا سال ہے ۔ آج سے 50 سال قبل 10 اپریل 1973 ء کو پارلیمنٹ نے متفقہ دستور کی منظوری دی تھی اور 14 اپریل 1973 ء کو صدر پاکستان نے اس دستورکی توثیق کردی تھی ۔ آج پوری قوم انتہائی فخر کے ساتھ اپنے متفقہ آئین کی منظوری کی 50 سالہ تقریبات منا رہی ہے ۔ یہ 1973 ء کا دستور ہے ، جس نے پارلیمنٹ کو سپریم ( بالادست ) ادارہ بنایا ، جس نے پاکستان کو وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام دیا اور جس نے سویلین بالادستی کو یقینی بنایا ۔
جن دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف عمران خان زہر اگلتے رہتے ہیں ، انہوں نے آج سے 17سال قبل 14 مئی 2006 ء کو لندن میں میثاق جمہوریت (چارٹر آف ڈیمو کریسی ) کی تاریخی دستاویز پر دستخط کئے۔ جس سیاسی قیاد ت کو عمران خان گالی دیتے ہیں ، انہوں نے آج سے 13 سال پہلے 8 اپریل 2010 ء کو 18 ویں آئینی ترمیم منظور کی ۔ اس ترمیم کے ذریعے 1973 ء کے دستور کو نہ صرف اصل صورت میں بحال کیا بلکہ آمرانہ حکومتوں نے پارلیمنٹ سمیت سیاسی اداروں کے جو اختیارات سلب کئے تھے ، وہ بھی بحال کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے جن سیاسی قوتوں کو کرپٹ اور ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار دینے کا جو بیانیہ اختیار کیا ہوا ہے ، وہ عمران خان کا اپنا بیانیہ نہیں ہے ۔ سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے کا بیانیہ پاکستان کی غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا روایتی بیانیہ ہے ،جو 1947 ء سے چلا آ رہا ہے ۔ اس بیانیے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حقیقی سیاست دانوں کو عوام کی نظروں میں گرا کر سیاست اور سیاسی اداروں کو کمزور کیا جائے تاکہ غیر سیاسی قوتیں اپنی من مانی کر سکیں ۔ عمران خان خود تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں بعض اداروں نے بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کرپٹ ہے یعنی انہوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ یہ ان کا اپنا بیانیہ نہیں ہے ۔
کسی بھی نئے عمرانی معاہدے کے لئے آگے بڑھنے سے قبل لازمی ہو گا کہ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور کرپٹ کہنے کے اس بیانیے کو ترک کر دیں ، جو ان کا اپنا بیانیہ نہیں ہے اور جو سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کا پرانا اور بدنیتی پر مبنی بیانیہ ہے ۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد 1973ء کا دستور ایک ایسا عمرانی معاہدہ ہے ، جو نہ صرف سیاسی اداروں کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے بلکہ یہ ملک کی سلامتی اور بقا کا بھی ضامن ہے ۔ اس دستور یعنی عمرانی معاہدے میں ہر بحران سے نمٹنے کی صلاحیت ہے ۔ اگر عمران خان کسی جمہوری اور مہذب ملک میں ہوتے تو انہیں اپنے مخالفین کو بلا ثبوت چور اور ڈاکو کہنے پر کئی بار سزا ہو چکی ہوتی اور وہ سیاست سے ہمیشہ کے لئے باہر ہو جاتے ۔ سیاسی اداروں اور سیاست کو مضبوط کرنا ہے اور اختیارات فوج سے سیاسی اداروں کو منتقل کرنا ہیں تو عمران خان کو اپنے بیانیے سے دستبردار ہو کر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنا ہو گا ۔ 1973 ء کے دستور کی 18 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ حفاظت کا حلف لینا ہو گا ۔ میثاق جمہوریت کی روشنی میں آئین میں کچھ ایسی ترامیم کرنا ہوں گی ، جو وفاقی پارلیمانی دستور کی روح کے مطابق ہوں اور جن سے فوجی بغاوت (military coup)، عدالتی بغاوت (judicial coup) اور غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت کے سارے راستے بند کرنا ہوں گے۔ عمران خان کو اپنا یہ بیانیہ بھی ترک کرنا ہو گا کہ فوج مداخلت کرکے انہیں دوبارہ اقتدار میں بٹھائے۔ اگر عمران خان ایسا نہیں کر سکتے تو یہ حقیقی نیا عمرانی معاہدہ نہیں ہو گا بلکہ عمران خان کا یعنی ’’عمرانی‘‘ معاہدہ ہو گا، جو ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا ۔ عمران خان کی مخالف سیاسی قوتیں سیاسی اداروں کی بالادستی اور انہیں مکمل بااختیار بنانے کے لئے بہت پہلے سے کام کر رہی ہیں اور قربانیاں دے رہی ہیں۔ نئے عمرانی معاہدے کےلئے عمران خان کو بنیادی جمہوری دھارے میں آنا ہو گا۔
مزید خبریں
-
پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں باہمی اختلافات کا آغاز اگرچہ اس کی ابتدا سے ہی میں سامنے آنے لگا تھا لیکن جب...
-
خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت ماضی کی روایات سے ہٹ کر اپنی توجہ جنوبی پنجاب پربھی دے رہی...
-
جا پہنچتا ہے جابجا اُڑ کرفاصلے یُوں عبور ہوتے ہیں جھوٹ کے پائوں تو نہیں ہوتے جھوٹ کے پَر ضرور ہوتے ہیں
-
نفسیاتی ……مبشر علی زیدیکل میں نے ایک تقریب میں عجیب نفسیاتی بندہ دیکھا، ڈوڈو نے بتایا۔کیا وہ اپنے آپ سے...
-
زندگی کی جو سڑک ہمیں بظاہر خالی دکھائی دیتی ہے وہ بھی ایک ایسے ہجوم سے بھری ہوتی ہے جو ہماری ظاہری آنکھوں سے...
-
جب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے تو یونہی یاد آیا...
-
یہی ہونا تھا ۔جس خدشے کا اظہار انہی صفحات میں پہلے ہی یہ عاجز کرچکا ہے کہ نئے امریکی صدر کے عزائم کچھ اچھے نظر...
-
عقل اور عشق کی کشمکش ہماری زندگی کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ جب علامہ اقبال جیسے شاعر نے کہا کہ بے خطر کود پڑا...