قیام پا کستان سے ہی پارلیمان کی ’’ بالادستی ‘‘ کی کشمکش شروع ہو گئی تھی ،کبھی سول و ملٹری بیورو کریسی پارلیمان پر حاوی ہو جاتی توکبھی عدلیہ پارلیمان پر اپنا حکم چلانے لگتی ۔پارلیمان قانون سازی کے ذریعے اپنی حاکمیت منوانے میں کامیاب ہو جاتی لیکن اس کی حاکمیت زیادہ دیر تک نہیں چل سکی۔ نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی کو جس طرح عدالتی فیصلوں کے ذریعے قومی سیاست سے نکالنے کی کوشش کی گئی وہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے ، اب ایک بار پھر دو اہم ریاستی ادارے مقننہ و عدلیہ باہم متصادم ہیں۔ خدشہ ہے کسی وقت بھی ہم کسی حادثے سے دوچار ہو سکتے ہیں جس کی سزا ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کا 22مارچ2023ء کا 8اکتوبر 2023ء کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 14مئی 2023ء کو انتخابات کرانے کاحکم جاری کر دیا ہے جسے حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ صرف مسترد کر دیا گیا بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے ’’عدالتی جبر‘‘ قرار دیا اور کہا کہ 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا آج پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا ہے، 44سال قبل مسلم لیگ (کونسل) ،جس کی وارث مسلم لیگ (ن) ہے ،بھی ان سیاسی جماعتوں میں شامل تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کے فیصلے کی حمایت کرتی رہی ہیں جب کہ آج کی اپوزیشن (پی ٹی آئی) سپریم کورٹ کے فیصلہ پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’سپریم کورٹ نے آئین کی حفاظت کی ہے ۔‘‘ انہوں نے اگرچہ انتخابات کے بعد سیاسی اداروں کے درمیان نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے لیکن پچھلے ایک سال کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدلیہ کے ایوانوں اور سڑکوں پر لڑی جانے والی لڑائی نے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے ۔ سیاسی عدم استحکام کے معاشی استحکام پر اس حد تک منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کہ ہر آنے والے عدالتی فیصلے کے بعد ڈالر کی اڑان قابو سے باہر ہو رہی ہے اوراس وقت ڈالر300روپے کی حدود کو چھو رہا ہے۔ عمران خان برملا یہ بات کہہ رہے ہیں کہ انہیں دوبارہ اقتدار میں نہ لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے پاس ملک کو بحران سے نکالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے تاہم عمران خان بار بار اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں جن لوگوں نے انہیں مارنے کی کوشش کی ہے وہ اقتدار میں آکر ان کا احتساب کریں گے ۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر جہاں وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے وہاں سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی خاموش نہیں بیٹھے رہے انہوں نے حکومت سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت تین ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے فل کورٹ بنانے سے متعلق قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی ہے ، بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن خالد مگسی نے قرار داد پیش کی جب کہ پی ٹی آئی کے رکن محسن لغاری نے قراداد کی مخالفت کی، انہوں نے کہا کہ’’ ہم خطرناک راستے پر چل کر توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔‘‘قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایوان سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے ایک ہی وقت پر عام انتخابات کو مسائل کا حل سمجھتا ہے ۔ایوان دستور کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اور اسے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے ذریعے ازسرنو تحریر کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف عام طور پاکستان کی سیاسی صورت حال پر فوری طور پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتے لیکن جب سے سپریم کورٹ میں پنجاب میں 14مئی 2023ء کو انتخابات کرانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ٹیک اپ ہوا ، وہ دو بار پریس کانفرنس کر چکے ہیں ،اگرچہ ابھی تک شہباز حکومت نے چیف جسٹس سمیت تین ججوں کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھجوانے کا فیصلہ نہیں کیا تاہم نواز شریف اپنی حکومت کو مسلسل ’’مشورہ ‘‘ دے رہے ہیں کہ وہ سپریم جودیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرے جب کہ ان کی صاحبزادی بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے سے کچھ زیادہ کا تقاضا کر رہی ہیں۔ نواز شریف کا مؤقف ہے کہ ریاست کو مفلوج بنا کر ’’لاڈلے ‘‘‘ کے عشق میں سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ فل کورٹ بنانے میں کیا مسئلہ ہے، ہمیں اعتماد ہے میں نے پہلے ہی کہا تھا اس طرح کے فیصلے آئیں گے تو ڈالر 500 روپے کا ہو جائے گا ۔وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے کہا ہے کہ’’ آئینی اور قانونی مقدمات جو قوم کی تقدیر سے جڑے ہوتے ہیں انہیں تحمل اور سب کو بٹھا کرسنا جانا چاہئے۔‘‘ یہ بات قابلِ ذکر ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے2006میں لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے جس میں آئینی عدالتیں قائم کرنے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ میثاق جمہوریت کی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی توثیق کی تھی لیکن میثاق جمہوریت کی روشنی میں آئین میں ترمیم نہیں کی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ آج بار بار سپریم کورٹ میں آئینی امور اٹھائے جا رہے ہیں ۔سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کے بارے میں مختصر فیصلہ جاری کر دیا ہے تاہم تفصیلی فیصلہ بعدازاں جاری کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 8اکتوبر2023 ء کی نئی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 10اپریل 2023ء تک الیکشن کمیشن کے پاس 21ارب روپے جمع کرانے کا حکم جاری کیا ہے، آج 9اپریل 2023ء ہے، ابھی تک حکومت نے مطلوبہ رقم الیکشن کمیشن کے اکائونٹ میں جمع نہیں کروائی۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ 14مئی 2023ء کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پنجاب میں انتخابات کا عمل مکمل ہو جائے گا لیکن عمران خان بھی کہتے ہیں کہ’’ حکمراںمافیا‘‘ شکست کے خوف سے انتخابات نہیں کرائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت انتخابات کے لئے افواج ، رینجرز ، ایف سی اور دیگر اہلکارفراہم کرے گی لیکن اس بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ عام انتخابات میں فوج کو تعینات کیا جائے گا کہ نہیں کیونکہ وزارت دفاع کی جانب سے بند لفافے میں سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے جس میں فوج کی تعیناتی سے معذوری کا اظہار کیا گیا ہے۔ (جاری ہے)
مزید خبریں
-
پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں باہمی اختلافات کا آغاز اگرچہ اس کی ابتدا سے ہی میں سامنے آنے لگا تھا لیکن جب...
-
خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت ماضی کی روایات سے ہٹ کر اپنی توجہ جنوبی پنجاب پربھی دے رہی...
-
جا پہنچتا ہے جابجا اُڑ کرفاصلے یُوں عبور ہوتے ہیں جھوٹ کے پائوں تو نہیں ہوتے جھوٹ کے پَر ضرور ہوتے ہیں
-
نفسیاتی ……مبشر علی زیدیکل میں نے ایک تقریب میں عجیب نفسیاتی بندہ دیکھا، ڈوڈو نے بتایا۔کیا وہ اپنے آپ سے...
-
زندگی کی جو سڑک ہمیں بظاہر خالی دکھائی دیتی ہے وہ بھی ایک ایسے ہجوم سے بھری ہوتی ہے جو ہماری ظاہری آنکھوں سے...
-
جب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے تو یونہی یاد آیا...
-
یہی ہونا تھا ۔جس خدشے کا اظہار انہی صفحات میں پہلے ہی یہ عاجز کرچکا ہے کہ نئے امریکی صدر کے عزائم کچھ اچھے نظر...
-
عقل اور عشق کی کشمکش ہماری زندگی کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ جب علامہ اقبال جیسے شاعر نے کہا کہ بے خطر کود پڑا...