انصاف کی عالمی درجہ بندی؟

حناپرویز بٹ
09 اپریل ، 2023
139 ممالک میں سے 130 واں نمبر کسی طرح سے قابل فخر نہیں ہوسکتا ،اس درجہ بندی کی کوئی تو وجہ ہوگی؟ ایک وجہ تو زبان زدعام ہے کہ بدقسمتی سے اس ادارے کو ہر دورِ جبر میں ایک نہ ایک جسٹس منیر بآسانی دستیاب رہا ہے، قانون کا ہر سچا طالبعلم ان کے نام اور کام سے بخوبی واقف پایا گیا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ نام بے انصافی کی تاریخ میں ایسا تکلیف دہ کردار ہے جس کے بارے میں دفتر کے دفتر لکھے جا چکے ہیں، کوئی نارمل فرد ایسا کردار بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا، جب کبھی جانبدارانہ، غیر پیشہ ورانہ اور غیر منصفانہ فیصلے کی بات ہو گی تو بلا شبہ یہ نام سر فہرست اور سیاہ حروف میں لکھا نظر آئے گا، قانون کی جنتری کہتی ہے کہ اس نام کی سیاہی تمام دیگر ناموں کی سیاہی پر بازی لے گئی ہے ، دیکھا گیا ہے کہ تمام تر بدنامیوں کے خوف کے باوجود کم و بیش ہر دور میں ایک ایسا جج بآسانی دستیاب ہو جاتا ہے جو نہ کسی تاریخ سے خوفزدہ ہوتا ہے اور نہ ہی وزنی طوقِ بدنامی گلے میں ڈالنے سے ڈرتا ہے، میرا خیال ہے کہ جسٹس منیر جیسا بننا یقیناًاپنی ذات میں نہایت خوش کن، نہایت دلفریب اور نہایت چمکدار اس لئے ہوتا ہوگا کہ اس پر ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہوگا، اسے خلعت فاخرہ پہنائی جاتی ہوگی، لعل و یاقوت و کندن سے منہ بھر دیا جاتا ہوگا، اس کے برعکس کتنا کٹھن، کتنا خوفناک اور کس قدر غمناک ہوتا ہوگا فائز عیسیٰ بننا، اپنی اہلیہ کے تقدس کو ٹھیس پہنچتے دیکھنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہوگا شوکت صدیقی بننا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے ، قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ذہنی اور جسمانی اذیتیں سہنا کوئی آسان کام تو نہیں ہوگا نا؟
اگر ہر دور میں جسٹس منیر ہوسکتا ہے تو ہر دور فرعون میں ایک موسیٰ بھی تو پیدا ہوتا ہوگا ،حالیہ دور میں کئی موسیٰ دیکھ لئے ہیں، وقار سیٹھ، مندوخیل، یحییٰ اور اطہر من اللہ ایسے موسیٰ سامنے آئے ہیںجنہوں نے ہر قسم کے دبائو، لالچ اور ہوس کو سرے سے مسترد کردیا ہے، وجہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے کہ وقت سے پہلے اسمبلیاں توڑنے والوں نے وقت سے پہلے دوبارہ انتخابات کروانے پر اصرار کرنا تھا تو پھر اسمبلیاں توڑنے کی حماقت کیوں کی ؟ قانون کے حلقوں میں بحث چل پڑی ہے کہ جھوٹا ثابت ہونے پر وکیل کا لائسنس منسوخ اور سیاستدان نااہل ہوتے دیکھے ہیں لیکن منصف اگرجھوٹا ثابت ہوجائے تو اسے کیوں نہیں عہدے سے ہٹایا جاسکتا ؟ ہوا چل پڑی ہے کہ اب استعفے سے کم میں بات نہیں بنے گی، پنشن بھی تو بچانی ہے،اگر پھر بھی استعفیٰ نہیں آتا تو وفاق کو ریفرنس بھیج کر برطرف کرنا ہوگا تاکہ دوسروں کو عبرت ہوسکے، توہین عدالت کا شور برپا کرنے والے ودیگریہ لکھ کر رکھ لیں کہ یا تو انتخابات اکتوبر میں ہوں گے یا پھراس سے بھی آگے جاسکتے ہیں لیکن اس بار وزیر اعظم نہیں بلکہ کوئی اور ہی گھر جائے گا، کیونکہ چار تین کے فیصلے کی توثیق ہوئی ہے۔ چاروں اور سے استعفیٰ دو استعفیٰ دو کا مطالبہ اس قدر گونجنا شروع ہوگیا ہے کہ اس کے ڈرائونے خواب دن میں بھی آیا کریں گے، انتشار پھیلانے والوں کے سہولت کار اس جال میں خود پھنس گئے ہیں جو انہوں نے دوسروں کیلئے بچھایا تھا،وہ تو دیوالیہ دیوالیہ کا شور کرنے میں لگے رہے جب کہ شہباز شریف حکومت خاموشی سے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے پر لگی رہی، وہ دن دور نہیں جب معاشی خوشحالی کی بند ٹرین دوبارہ چل پڑے گی۔