متکبرانہ فیصلے آئین برطرف نہیں کرسکتے، 6 رکنی نام نہاد لارجر بنچ کی تشکیل قانون تھی نہ آئینی، اس کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ

09 اپریل ، 2023

اسلام آباد( رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ کے سینئر تین جج ،مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےʼʼ حفاظ قرآن کو میڈیکل کالج میں داخلہ دیتے وقت 20 اضافی نمبر ز دینے ʼʼ سے متعلق کیس کے حوالے سے تفصیلی نوٹ جاری کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے 29 مارچ کے حکمنامہ کوعدالت کا 6 رکنی نام نہادلارجربینچ کالعدم نہیں کر سکتا تھا، 6ججوں کا فیصلہ آئین کا متبادل نہیں ہو سکتا ہے،6جج جلد بازی میں اکٹھے ہوئے اور چند منٹوں میں ہی ازخود نوٹس کارروائی کو ختم کر دیاہے ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ متکبرانہ آمریت کی دھن میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کرسکتے ہیں، چیف جسٹس کیلئے استعمال کیا گیا لفظ ʼʼماسٹر آف رولز ʼʼآئین ،قانون یا سپریم کورٹ کے رولز میں کہیں نہیں ملتاہے،ہفتہ کے روز سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری تفصیلی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیاہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی وفاقی حکومت کے ملازم ہیں ،جنہیں ڈیپوٹیشن پر سپریم کورٹ میں بطور رجسٹرار کام کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا ،وفاقی حکومت کی جانب سے انہیں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے 3اپریل کو واپس بلا لیا گیا اور حکم دیا گیا تھا کہ وہ فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو رپورٹ کریں،تاہم انہوںنے وفاقی حکومت کے حکم کی تعمیل سے انکار کردیا ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ انہوںنے 4 اپریل کو خود کو غلط طور پر رجسٹرار ظاہر کیا اور از خود نوٹس مقدمہ نمبر 4/2022میں مزعومہ (فرضی طور پر)منگل 4 اپریل کے لئے عدالتی فہرست اپنے دستخط سے جاری کی اور فرضی لارجر بنچ بوقت دو بجے بھی تشکیل دے دیا ،اس کے متعلق کہا گیا کہ یہ چیف جسٹس کے حکم پر کیا گیا ہے ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ اس مقدمہ کو 15مارچ 2023کو ایک تین رکنی بنچ کے سامنے مقرر کیا گیا تھا ،اس حکمنامہ کی تعمیل کی بجائے رجسٹرار نے ایک ایسا کام کیا جو غیر معمولی تھا ،انہوںنے ایک مراسلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس حکمنامہ میں جاری کردہ کسی بھی رائے کو نظر انداز کیا جائے گا ،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ میں نے عشرت علی کو لکھا کہ انکامراسلہ از خود نوٹس کیس نمبر چار میں سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ کی جانب سے جاری کردہ حکمنامہ 29مارچ 2023کی نفی کرتا، اسے کالعدم کرتا اور اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ،ان کو اطلاع بھی دی گئی کہ رجسٹرار کے پاس عدالتی حکمنامہ کا کالعدم کرنے کے لئے کوئی طاقت یا اختیار نہیں ہے اور چیف جسٹس بھی اس مقصد کے لئے کوئی انتظامی حکم جاری نہیں کرسکتے ہیں،خط کی نقل چیف جسٹس کو بھی بھیجی گئی لیکن آج تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔فاضل جج نے لکھا ہے آئین سپریم کورٹ کو وجود میں لاتا ہے ،اور اس کی تعریف یہ طے کرتا ہے کہ یہ چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہے۔درج بالا مقدمہ میں جاری حکمنامہ نے آئینی اور قانونی حیثیت واضح کی تھی اور یہ کہ چیف جسٹس اپنے لئے یکطرفہ طور پر سپریم کورٹ کے تمام اختیارات حاصل نہیں کرسکتے ہیں،مناسب ہوگا کہ اس حکمنامہ کے فقرات 27اور 28پیش کئے جائیں، 27 کے مطابق سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ مذکورہ بالا امور کو منضبط کرنے کے لئے قواعد وضع کرے ،سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججوں پر مشتمل ہے ،چیف جسٹس اپنی دانش کو آئین کی حکمت کی جگہ نہیں دے سکتے ہیں ،جس نے ان امور کو طے کرنے کے لئے انہیں یکطرفہ اور اپنی مرضی کا اختیار نہیں دیا ہے ،چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے تمام ججوں کی جانب سے اجتماعی طور پر تعین کا کام کوئی فرد اپنے طور پر نہیں کرسکتاہے ،خواہ وہ چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو ؟28میں قرار دیا گیا ہے شہریوں کے مفاد کے لئے بہتر ہوگا کہ اس مقدمہ اور ایسے تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کی جائے جن کا نوٹس آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت لیا گیا ہے ،جب تک مذکورہ بالا امور کو منضبط کرنے کے لئے آئین کی دفعہ 191کے مطابق ضروری قواعد نہ بنائے جائیں ،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ مزعومہ (فرضی )لارجر بنچ کے متعلق مفروضہ یہ ہے کہ اس کی تشکیل تب کی گئی جب یہ احساس ہوا کہ مراسلہ واضح طور پر غیر آئینی اور غیر قانونی تھا اور یہ کہ چیف جسٹس اسے جاری کرنے کے لئے ہدایات نہیں دے سکتے تھے ،فاضل جج نے لکھا ہے کہ آئین نے طے کیا ہے کہ کسی عدالت کو کوئی اختیار سماعت حاصل نہیں ہوگا ،سوائے اس کے جو اسے آئین یا اسے کسی قانون کی رو سے یا اس کے تحت اسے دیا گیا ہو،آئین نے چیف جسٹس تو درکنا ر سپریم کورٹ کو بھی غیر محدود اختیار سماعت عطا نہیں کیا ہے ،آئین نے سپریم کورٹ کو صرف درج ذیل انواع کا اختیار سماعت دیا ہے ،(اول)ابتدائی اختیار سماعت ، (دوئم) اپیل کے لئے اختیار سماعت ،(سوئم)مشاورتی اختیار سماعت ،(چہارم)مقدمات منتقل کرنے کا اختیار سماعت ،(پنجم )نظر ثانی کا اختیار سماعت ،(ششم ) توہین عدالت کے لئے اختیار سماعت اور(ہفتم ) انتظامی عدالتوں اور ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کا اختیار سماعت ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ آئین سپریم کورٹ کے بنچ یا ججوں کو (خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو؟)یہ اختیار سماعت نہیں دیتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے کسی حکمنامہ کے خلاف فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھ جائیں،اس لئے فرضی طور پر مقدمہ درج بالا کی سماعت کے لئے نام نہاد لارجر بنچ کی تشکیل ہی غلط تھی، اس لارجر بنچ کو آئینی عدالت کی کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی ،اس کے پاس اختیار سماعت کی مذکورہ بالا 7 انواع میں کوئی اختیار حاصل نہ تھا ،اور یہ بنچ کوئی حکمنامہ جاری نہیںکرسکتا تھا ،فاضل جج نے مزید لکھا ہے کہ درج بالا فرضی حکمنامہ کو سپریم کورٹ کا حکمنامہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ،اس حکمنامہ کا کوئی آئینی او رقانونی اثر نہیں ہے ،قانونی طور پر یہ بات غلط ہوگی کہ اسے حکمنامہ کہا جائے ،اس لئے اس کو چار اپریل کا نوٹ کہا جائے گا،فاضل جج نے سوال اٹھایا ہے کہ؟ کیا چار اپریل کے نوٹ کی تعبیر یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ تین رکنی بنچ کے 29مارچ 2023کے حکمنامہ پر نظر ثانی کا حکمنامہ ہے ،اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ لارجر بنچ ایسا نہیں کرسکتا تھا ،اگر نظر ثانی کے اختیار سماعت کو استعمال کیا جاتا تو مقدمہ نمبر چار کو انہی تین ججوں کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کیا جاتا ،جنہوںنے پہلے اس کی سماعت کی تھی ،لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے،فاضل جج نے قراردیا ہے کہ مذکورہ بالا سات آئینی شقوں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ طے شدہ طریقہ کار کی درج ذیل بے ضابطگیوں کا بھی ارتکاب کیا گیا ،(اول ) ،فہرست اسی روز جاری کی گئی ،اور ایسا صرف اس وقت کیا جاتا ہے ،جب کوئی بہت ہی غیر معمولی ایمرجنسی ہو ،جبکہ موجودہ مقدمہ میں ایسی کو ئی ایمرجنسی نہیں تھی ،ن(دوئم)،جس دن فہرست جاری کی گئی اسی روز مقدمہ سماعت کے لئے بھی مقرر کردیا گیا ،وہ بھی عدالتی وقت کے بعد؟(سوئم) ،معاملہ کے مقرر ہونے کے متعلق کوئی پیشگی نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا ،(چہارم)اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا،اس کے باوجود 4اپریل کا نوٹ کہتا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالتی نوٹس پر موجود تھے ،اور پی ایم ڈی سی کے وکیل پیشگی نوٹس کے بغیر ہی حاضر تھے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوںکو زبانی طور پر یا ٹیلی فون کے ذریعے بلایا گیا تھا ،جوکہ مناسب نہیں تھا،فاضل جج نے قراردیاہے کہ 6ججوں کو عجلت میں جمع کیا گیا ،بنچ کی سربراہی کرنے والے فاضل جج اور انکے بعد سینئرترین جج نے اکٹھا ہونے کے بعد چند منٹوں میں ہی سارا معاملہ نمٹا دیا اورفوری طور پر اسی روز ہی 8صفحات کانوٹ بھی جاری کردیا گیا ،اگر اس معاملہ کو عام طریقے سے یا عام ضابطہ کے مطابق مقرر کیا گیا ہو تا ،مناسب نوٹس جاری کیا گیا ہوتا ،اس پر مناسب غور کیا گیا ہوتا تو شایدچار جونیئر ججوں کو بھی یہ احساس ہو جاتا کہ ان کے سینئرز جو کچھ کررہے ہیں ،وہ آئین و قانون کے مطابق نہیں ہے ،فاضل جج نے لکھا ہے کہ 29مارچ 2023کے حکمنامہ نے ان مقدمات کے متعلق جوآئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دائر کئے جاتے ہیں یا ان کا نوٹس لیا جاتا ہے ،ان کے قواعد کی عدم موجودگی کی نشاندھی کی تھی،تاہم مقدمہ نمبر چار میں آئین کی دفعہ 184(3)کے تحت اضافی نمبروں کے معاملہ میں پہلے ہی نوٹس لیا جاچکاتھا ،ستم ظریفی یہ ہے کہ چار اپریل کا نوٹ ایسے معاملہ میں جس میںلارجر بنچ نے غلط طور پر اپنے لئے اختیار سماعت حاصل فرض کرلیا تھا ،قراردیتا ہے کہ 29مارچ کا حکمنامہ اس لئے بھی اختیار سماعت کے بغیر تھا اور اس سے متجاوز بھی تھا ، چار اپریل کے نوٹ کو آئینی یا قانونی جوا زحاصل نہیں ہے،کیونکہ یہ آئین کے برعکس ہے ،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ آئین ہی وہ دستاویز ہے جس نے وفاق کو جوڑرکھا ہے ،ہر جج اپنا عہدہ سنبھالنے سے قبل حلف اٹھاتا ہے کہ میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمانداری ،اپنی انتہائی صلاحیت اور دیانتداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق سر انجام دوں گا ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ چیف جسٹس قابل احترام ہیں لیکن وہ ماسٹر (مالک) نہیں ہیں ،ایسی غلامی اسلام کے لئے اجنبی ہے ،فاضل جج نے قرآن پاک کے احکامات کاحوالہ دیتے ہوئے قرار دیاہے کہ ʼʼاپنے معاملات آپس میں مشاورت سے طے کریں،اللہ کے رسول سے زیادہ کوئی اپنے ساتھیوںسے مشورہ کرنے والا نہیںتھا،فاضل جج نے بھوٹان کے بادشاہ کی جانب سے بھی اپنے اختیارات چھوڑنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب اختیارات کا ارتکاز کسی ایک فرد میںہو تو اس کے نتائج ہمیشہ ہی تباہ کن ہوتے ہیں، فاضل جج نے قرار دیا ہے اگر عدلیہ کے جواز ،وقار اور اعتبار پر حرف آیا تو عدلیہ اور پاکستان کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا،کیونکہ اس کے بغیر عوام عدلیہ پر اپنا اعتماد کھو بیٹھیں گے ، اورایسا کرنے کا سب سے یقینی راستہ یہی ہے کہ مقدمات کے فیصلے آئین و قانون کے مطابق نہ کئے جائیں ،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ پاکستان کو سب سے پہلے اس وقت برباد کیا گیا جب ایک بیورو کریٹ گورنر جنرل نے آئین ساز اسمبلی غیر آئینی طریقے سے برطرف کردی تھی اور سندھ چیف کورٹ کا متفقہ فیصلہ وفاقی عدالت نے منسوخ کردیا تھا ،وفاقی عدالت کے اس فیصلے نے مستقبل کے آمروں کوسویلین حکومتیں برطرف کرنے کے قابل بنایاہے ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ افسوس ہے کہ ایک سے زاید مرتبہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں نے آمروں کی سہولت کاری کی ہے ،سب سے زیادہ مسلم آباد ی والاملک(بنگلہ دیش) اس وجہ سے دولخت ہوا ،کیونکہ آئینی انحرافات کو جواز دیے گئے تھے ،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ چونکہ نہ تو آئین نے ،نہ ہی کسی اور قانون نے کسی عدالت میں چھ ججوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اختیارات دیں ،اس لیئے مقدمہ نمبر چار میں سپریم کورٹ کے حکمنامہ مورخہ 29مارچ 2023کو چار اپریل کا چھ رکنی بنچ کا نوٹ منسوخ نہیں کرسکتا ہے ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ متکبرانہ آمریت کی دھن میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کرسکتے ہیں،فاضل جج نے قراردیاہے کہ چیف جسٹس کیلئے استعمال کیا گیا لفظ ʼʼماسٹر آف رولز ʼʼآئین ،قانون یا سپریم کورٹ کے رولز میں کہیں نہیں ملتاہے۔