لاہور(نمائندہ جنگ )پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما و وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ نواز شریف کےفیصلہ میں شریک 2ججوں کو استعفیٰ دینا چاہیے، نواز شریف اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں کیلئے نہیں بولا لیکن اب پاکستان بچانے کے لئے لب کھولنے والا ہے، کسی وقت بھی تحریک کا اعلان کرے گا اور آئین کے تحفظ کے لئے اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے کسی بھی حد تک جائے گا،بات اگر اسٹیبلشمنٹ ، ججوں کے فیصلوں یا عمران خان تک رہتی تو شاید وہ چپ رہتا مگر بات اس سے آگے نکل گئی ہےآج ایک انصاف فراہم کرنے والے ادارے کے لئے لوگوں سے آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ ہم استعفیٰ لینے اسلام آباد آرہے ہیں،یہ نوبت نہیں آنی چاہیے ،پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف صاحب کو اور 2017ء کی جو جے آئی ٹی بنی تھی جو فیصلہ لینے کے لئے مانیٹرنگ جج بنا تھا کم از کم ان دو کو از خود استعفیٰ دے دینا چاہیے تاکہ قوم کے اندر اس ادارے کا بھرم رہ جائے ، قوم کا یہ مطالبہ ہے کہ جو ذہن سازی عدلیہ میں ہماری قیادت کے خلاف ڈاکو ، لٹیرے اور سسیلین مافیا کے طور پر کی گئی جو سزائیں بے گناہ ہوتے ہوئے دی گئیں فل کورٹ بنا کر وہ واپس لی جانی چاہئیں، 2023 میں بھی ہماری قیادت کو رنگ سے باہر رکھ کر کسی اور کو رنگ میں اکیلا کھیلنے کا موقع دیا جائے ایسا نہیں ہو سکتا ۔آج جو بحران ہیں عالمی ادارے اور عالمی قوتیں اس سے فائدہ اٹھاکر پاکستان کے اداروں سے وہ باتیں منوانا چاہتی ہیں جو پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں،بدقسمتی ہے ججوں اور جرنیلوں کی مہم جوئی سے ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے، ہر طرف سیاسی ،عدالتی ،معاشی و اخلاقی بحران نظر آ رہا ہے،لاڈلے کی ضرورت کے تحت آئین کو ری رائٹ کیا گیا ، پنجاب اسمبلی میں ووٹ دینے والا تو نا اہل ہوگیا لیکن اس کا ووٹ شمار نہیں ہوا، دوسری بار پھر پنجاب حکومت گرانا تھی تو آرٹیکل63اے کا استعمال ہوا اور آئین ری رائٹ ہوا اور پھر ایک لاڈلے کو موقع دے دیا گیا کہ وہ اپنی خواہش پور ی کر لے ۔کیا دنیا میں ایسا انصاف دیکھا ہے ،جاوید لطیف نے کہا کہ ایک شخص سیاسی ضرورت کے تحت استعفیٰ دے رہا ہے ، وہ استعفے کی دھمکی دینے کے لئے بھی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور جب قبول ہو جائے تو اس کی نئی ضرورت کی ایجاد کے لئے پھر نظریہ ضرورت کا استعمال ہو ۔ 1958میں جسٹس منیر نے مارشل لاء کو تحفظ دینے کے لئے نظریہ ضرورت کابے دریغ استعمال کیامگر آج عمرانی فتنے کو تحفظ دینے کے لئے ایک نیا نظریہ عمرانی سامنے آ گیا ہے ۔ از خود نوٹس اس وقت لیا جاتا ہے جب قومی یا ریاست کوضرورت ہوتی ہےلیکن یہاں تو عتیقہ اوڈھو کی شراب کی بوتل ،گلی میں پانی کھڑا ہونے پر از خود نوٹس ہوجاتا ہے ،ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیں ،نواز شریف کو ہائی جیکر بنایاتا حیات نا اہل کیا،بے گناہی کے تمام شواہد سامنے آنے ،تمام کرداروں کے اعتراف جرم کے باوجود بھی از خود نوٹس نہیں ہوا ،سپریم کورٹ پر دھبہ لگا جس سے پوری قوم کا اعتماد متزلزل ہوا فل کورٹ بنا کر اس کی تلافی کی جائے ،چار سالوں میں اس کی کرپشن ، آئین سے کھلواڑ بھی نظر نہیں آیا ، انتخابات کی جلدی اس لئے ہو کہ کہیں اس کے چہرے سے صادق اور امین کا جھوٹا نقاب نہ اتر جائے مگر میری قیادت کے منہ پر جوڈاکو ،چور اورلٹیرے کا پردہ ڈالا گیا وہ اسی طرح قائم رہے یہ نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ جب اداروں پر پیٹرول بم پھینکے جارہے تھے ،ڈی چوک میں للکارا جارہا تھا ،مالیاتی اداروں کو خطوط لکھے جارہے تھے کہ پاکستان سے مالیاتی ڈیل نہ کی جائے ، اس وقت ا ز خود نوٹس نہیں ہونا چاہیے جب سائفر لہرایا گیا ،جب اداروں میں بیٹھے لوگوں کو سہولت کاری کے لئے پکارا جارہا تھا،غیر آئینی فعل کے لئے اداروں کو پکارا جارہا تھا ،ایسا نہیں ہوا تو آج پاکستان اس بحران میں پھنس چکا ہے،سپریم کورٹ پر ہائیکورٹس پر سول کورٹس پر حملہ آور ہو جائو ،ججز کو نام لے کر دھمکیاں دو ۔پاکستانی قوم کے قیمتی دس سال کوضائع کیا گیا ۔اس خطے میں صورتحال نقشہ تبدیل ہو رہا ہے ، وہ قوتیں جو ہم سے توقع رکھتی ہیں مطالبات کر رہی ہیں وہ چاہتی ہیں ہم چین کے سامنے کھڑے ہو جائیں مگر یاد رکھیں جرنیلوں ،عالمی قوتوں کے مہرے کے ذریعے میری آزادی سلب کرنے کی کوشش ہو میں بات نہ کروں تو میں سب سے بڑا غدار ہوں گا۔کیا پاکستانی قوم میں سے کوئی کہے گا تین کا فیصلہ مانو چار کا نہ مانو ،پاکستان کے اندر آج تک جتنے فیصلے ہوتے آئے ہیں وہ غلط تھے یا صحیح کیا عدالتوں کی اکثریت کا فیصلہ ہوتا وہی نہیں مانا جاتا تھا ،جب نواز شریف کوزہر دیا گیا تھا اس وقت از خود نوٹس بنتا تھا،قاتلانہ حملے نواز شریف پربھی ہوئے لیکن کسی نے کہا کہ ان کو سکیورٹی فراہم کی جائے ،عالمی قوتوں کے ایجنٹ کے لئے کہا جائے اس کو تمام سکیورٹی فراہم کی جائے ، عمران خان عار ف علوی جیسے لوگ دوسرے اداروں میں بھی ڈھونڈنا شروع کر دے گا، پارلیمنٹ بالا دست ہے وہ اپنا کردار ادا کرے گی ۔انہوں نے کہاکہ آج 2018ء نہیں جب آرٹی ایس بند ہو جائے ،جنرل (ر)باجوہ ،جنرل (ر) جنرل فیض بھی ہوں ، ایک ادارے کے جرنیل جسٹس (ر) ثاقب نثار کا فیض عام بھی چل رہا ہو ،یہ 2023ہے ، آج ان تمام شخصیات جیسی سہولت میسر نہیں آئے گی کیونکہ قوم جاگ رہی ہے۔
اسلام آباد جوڈیشل کمیشن کے رکن پی ٹی آئی رہنما سینیٹر علی ظفر نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی...
کوہاٹکرک میں امن گرینڈ جرگہ، مسلح گروہوں کو انخلائ کیلئے3دن کی ڈیڈلائن دے دی اور قرار دیا کہ مقررہ مدت کے بعد...
اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس اسلام آباد میں پنجاب جوڈیشل سروس کے چار ججز کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کی مدت میں دو...
اسلام آباد سپریم کورٹ آئینی بنچ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر نے ریگولر بنچز کو خبردار کیا ہے کہ وہ قانون...
بیجنگ چینی محققین نے آف شور تیل اور گیس کے پلیٹ فارمز کی نگرانی کے لئے زمینی سائنس سیٹلائٹ ایس ڈی جی ایس اے...
اسلام آباد ایچ ایٹ انٹرچینج جو ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس اور جناح ایونیو پر ایک کلومیٹر طویل فلائی اوور اور...
پشاوروزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات ہوئی ،انہوں نے...
اسلام آباد وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون اور مسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر عقیل ملک نے صوابی جلسے میں وزیراعلی...