ترقی و خوشحالی کا ’’ٹی‘‘ ماڈل

تحریر: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
13 اپریل ، 2023
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں امریکی ڈریم اور چینی ڈریم کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا تھا ،اس حوالے سے مجھے مختلف قسم کا فیڈبیک موصول ہوا، قارئین نے میرے اس موقف کی تائید کی کہ دنیا کی ہر قوم ملکی ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھتی ہے اور پھر اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مشترکہ طور پر جدوجہد کرتی ہے، آج ہمیں جن افسوسناک حالات کا سامنا ہے، کسی زمانے میں امریکہ، چین، یورپ اور جاپان سمیت دورِجدید کے تمام ماڈرن ممالک بھی ان کا مقابلہ کرچکے ہیں، تاہم ان کی اعلیٰ قیادت نے اپنے عوام کا حوصلہ پست نہیں ہونے دیا اور مشکل کی ہر گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑے رہے۔ہمارے بڑوں نے بھی تحریک پاکستان کے دوران ایک آزاد اور خودمختار ملک کا خواب دیکھا اور اسے باہمی جدوجہد کی بدولت پورا بھی کردکھایا لیکن پاکستان کو عظیم سے عظیم ترملک اور ایشیئن ٹائیگر بنانے کا خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکا،کچھ کا کہنا تھا کہ گزشتہ سات دہائیوں میں ہرپاکستانی حکومت نے عوام کو خواب دکھائے ہیں لیکن وہ حقیقت میں سراب ثابت ہوئے ہیں اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔آج مختلف عالمی میڈیا ادارے ہماری موجودہ تشویشناک صورتحال کے تناظر میں گزشتہ سات دہائیوں میں اقتدار میںآنے والی حکومتوں کی غیر یقینی معاشی، اقتصادی اور سفارتی پالیسیاںکو زیربحث لارہے ہیں ،عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات درست نظر آتی ہے کیونکہ پاکستان کی تخلیق کے بعد اس وقت کی سیاسی قیادت نے پاکستان کے وسیع ترمفاد میں امریکی کیمپ کو جوائن کرنا مناسب سمجھا،میری نظر میں یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد پاکستان کو بیرونی ممالک سے امداد کی جو عادت پڑ گئی تو اس سے معاملات بگڑتے چلے گئے،ہم کبھی سردجنگ کا ہراول دستہ بن گئے اورکبھی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن نان نیٹو اتحادی، اس دوران ہمارے ملک میںبے شمار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور کاروباری تجارتی سرگرمیوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے، ہم نے بڑی مقدار میں امدادی ڈالر تو حاصل کرلئے لیکن ہم کوئی عالمی معیار کی بڑی صنعت نہ لگا سکے، ہماری کوئی پروڈکٹ عالمی مارکیٹ میں اپنا نام نہیں بنا سکی،کسی عالمی سرمایہ کار نے اپنے پلانٹس /فیکٹری کیلئے پاکستان کو منتخب نہیں کیا اورہماری کوئی یونیورسٹی بین الاقوامی اسٹوڈنٹس کو راغب نہیں کرسکی، یہی وجہ ہے کہ آج عالمی میڈیا ہماری صورتحال کا موازنہ پڑوسی ممالک سے کرکے ہمیں شرمندہ کررہاہے ۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ قابل نوجوان دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ ہم نے کبھی خوداپنی اہمیت کو نہیں سمجھا ، کبھی اپنے وسائل پر انحصار نہیں کیا اور ہمیشہ بیرونی قرضوں اور امداد کا انتظارکیا جس کے بدلے ہمیں کڑی شرائط کا سامنا کرنا پڑتا رہا اور عوام مہنگائی کی چکی میں پسنے میں مجبور ہوگئے۔ میرے خیال میں قوم کو ترقی کر نے کیلئے ـ’’ٹی ماڈل‘‘ اختیار کرنے کی ضرورت ہے،میں نے انگریزی زبان کا الفابیٹ ’’t‘‘ اسلئے منتخب کیا ہے کہ اسکے تحت ٹریڈ (تجارت)، ٹو فولڈ ریلیشن (دو طرفہ تعلقات)، ٹورازم (سیاحت)، ٹولرنس، ٹروتھ، ٹرسٹ (اعتماد)، ٹیکنالوجی کی اہمیت اجاگر کی جاسکتی ہے۔ اگر پاکستان ماضی میں عالمی برادری بالخصوص پڑوسی ممالک کے ساتھ' ٹو فولڈ ریلیشن' مستحکم کرتا اور 'ٹریڈ 'پر فوکس کرتا تو ہمارا امپورٹ ایکسپورٹ کا توازن اس بری نہ بگڑتا،اگر ہم 'ٹوررازم' میں ایک نیا عنصر' ٹولرنس' شامل کرتے ہوئے مذہبی سیاحت کو فروغ دیں تو نہ صرف ملک کا مثبت امیج بہتر ہوسکے گا بلکہ غیر ملکی یاتریوں کی آمد سے ڈالرز کی ترسیل بھی شروع ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر پاکستان کے تمام ادارے ایک دوسرے پر' ٹرسٹ' کرتے ہوئے اپنے آئینی دائرہ کار میں اپنے فرائض سرانجام دیں تو مختلف بحرانوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ بات صرف سمجھنے کی ہے کہ آج کے دور میں' ٹیکنالوجی' پرکسی ایک ملک کی دسترس نہیں ،ہمیں بھی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے عوام کے معیارِزندگی میں بہتری لانے کی کوششں کرنی چاہئےآج پاکستان کو جس طرح کے ہنگامی حالات کا سامنا ہے، ان کامقابلہ کرنا کسی ایک کے بس کی بات نہیں،ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو ایک اچھے ماحول میں اصلاحات پر بات چیت کرنے چاہئے۔اگر ہماری اعلیٰ قیادت عوام کا معیار زندگی بہتر کرتے ہوئے عالمی برادری میں پاکستان کا کھویا وقار بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے عوام کو ایک ایسا پاکستانی ڈریم دینا ہوگا جو دورِجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور حقیقت سے قریب تر ہو اورمیرے پیش کردہ ترقی کے ٹی ماڈل کا احاطہ کرتا ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)