عدالتی مارشل لاء؟

اداریہ
17 اپریل ، 2023

حکومتی اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ دعویٰ کہ چیف جسٹس نے سارے اختیارات پر قبضہ کرکے عدالتی مارشل لاء لگادیا ہے، نہایت سنجیدہ الزام ہے جس کا حقائق کی روشنی میں تجزیہ کیا جانا ملک کی ہر روز ابتر ہوتی صورت حال کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کی راہیں تلاش کرنے کیلئے ضروری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن اورحکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لیا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کا عمل شروع کیا تو اس پر پیشگی ہی عمل درآمد روک دیا، ایکٹ بنا بھی نہیں لیکن اس کے خلاف بینچ بنادیا، الیکشن شیڈول بھی دے دیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کی تعیناتی حکومت کا اختیار ہے لیکن ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے روک لیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کے مطابق اس صورت حال کو جوڈیشل مارشل لاء ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ آئین کے تحت کوئی ریاستی ادارہ دوسرے ادارے کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرسکتا ۔اسلام آباد میں گزشتہ روز کی گئی پریس کانفرنس میں چیف جسٹس کے اس رویے کے پیش نظرحکومتی اتحاد کے سربراہ نے یہ برمحل سوال اٹھایا ہے کہ آئینی طور پر اختیارات تقسیم ہیں پھر مداخلت کیوں کی جارہی ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان سے مذاکرات کے سوال پر ایسے کسی بھی امکان کو قطعی مسترد کرتے ہوئے اس موقف کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتیں ملک بھر میں قومی اور صوبائی انتخابات ایک ہی دن کرانے پر متفق ہیں ۔دوسری جانب گزشتہ روز ہی لاہور میں شاہدرہ فلائی اوور منصوبے کی تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی کے خوف سے 2018 کے الیکشن سے پہلے ہمارے منصوبوں پر پابندیاں لگائیں، اورنج لائن ٹرین پر اپنی بھڑاس نکالی، اس منصوبے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر گیارہ ماہ تک کیس سنا اور کارروائی مکمل ہونے کے آٹھ ماہ بعد تک فیصلہ نہ دیا۔ وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ سابق چیف جسٹس اپنے بھائی کو پی کے ایل آئی میں لگانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ کرپشن کا آغاز عمرانی دور میں ہوا،پی ٹی آئی کی حکومت میںتھانے بکتے تھے، ڈی پی اوز اور ڈی سی اوز کے دفتروں کی بولیاں لگتی تھیں جبکہ ہمارے دور میں کوئی ایسی بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس موقع پرسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو وکلاء تنظیموں کا مطالبہ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں اس کی منظوری کو باعث فخر قرار دیا اور واضح کیا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کاحق ہے اور یہ حق کسی اور کو استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔حکمراں اتحاد کے قائدین کے اس اظہار خیال سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ ملک کی عدلیہ کی قیادت سے اسے نہایت سنگین اور حقیقی شکایات ہیں۔پارلیمنٹ کے منظور کردہ عدالتی اصلاحات کے جس بل کاراستہ نہایت غیرمعمولی کارروائی کے ذریعے سے روکا گیا ہے، اس میں بینچ کی تشکیل اور از خود نوٹس میں دو سینئر ججوں کی شمولیت ضروری قرار دینے کے سوا کوئی اور بنیادی بات نہیں، جس سے خود سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلوں کے مطابق ملک کے سب سے بڑے ایوان انصاف میں جاری ون مین پاور شو کو شورائی و جمہوری اقدار سے بدلا جاسکتا ہے، لہٰذا چیف جسٹس کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ کا یہ کہنا کہ یہ قانون سازی عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کا دروازہ کھول دیگی، ناقابل فہم ہے۔اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ خود عدالت عظمیٰ کے ارکان میں اختلافات بڑھتے جارہے ہیں اور اس بارے میں خبریں اب زبان زد عام ہیں جبکہ چیف جسٹس کے رویے کو حکمراں اتحاد عدالتی مارشل لا سے تعبیر کررہا ہے۔ ملک کا نظام ظاہر ہے کہ اس طرح نہیں چل سکتا، لہٰذا ان شکایات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور خود عدلیہ کے سربراہ کو ان کے ازالے کا اہتمام کرنا چاہئے۔