سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا !

نفیس صدیقی
17 اپریل ، 2023
اس وقت پارلیمنٹ نے اپنی اور عدلیہ کے درمیان لڑائی میں پاکستان کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے ، جہاں کچھ بھی ایسا ہو سکتا ہے ، جو نہ صرف جمہوریت اور جمہوری عمل کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے بلکہ اس سے بطور ادارہ عدلیہ کو بھی نقصان ہو سکتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہو ، جسٹس اطہر من اللہ کی اس تجویز کو مان لینا چاہئے ، جو انہوں نے انتخابات التواء ازخود نوٹس کیس میں اپنے اختلافی نوٹ میں دی ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے ۔ تمام ذمہ دار ایک قدم پیچھے ہٹیں اور خود شناسی کا سہارا لیں کیونکہ ملک ایک بہت بڑے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ ‘‘
آئین پاکستان بڑی سخت جدوجہد اور دانشمندی سےبھٹو شہید اور پاکستانی قوم نےبنایا وہ اس کو آسانی سے ضائع نہیں کریں گے۔ پاکستان میں اس طرح کے بحران پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ بحران کی بنیاد ایک ازخود نوٹس کیس ہے ، جو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق تھا ۔ یہ از خود نوٹس چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے لیا تھا جو آئینی اور قانونی طور پر صحیح ہے۔ ماضی کی طرح اس لڑائی میں بظاہر فریق سیاسی ادارے اور عدلیہ ہیں اور شاید کسی نے بھی ماضی سے یہ سبق نہیں سیکھا کہ اس طرح کی لڑائیوں کا فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ عدالتی فیصلوں کو مسترد کر رہی ہے ۔ دونوں کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ نہ صرف آئین کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ وہ آئینی دائرہ اختیار میں کسی کو مداخلت بھی نہیں کر نے دیں گے ۔ ان حالات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ اس سے پہلے کوئی ایک فریق دوسرے کو زیر کرنے کی جلد بازی بھی کر سکتا ہے لیکن اس کا فائدہ بھی تیسرا فریق اٹھائے گا کیونکہ دونوں فریق اندرونی تقسیم اور تضادات کا شکار ہیں ۔ سیاست دانوں پر ہم کھل کر تنقید کر سکتے ہیں لیکن ہماری عدلیہ کا ماضی کا کردار بھی ایسا نہیں ہے ، جس پر فخر کیا جا سکے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات التواء ازخود نوٹس کیس میں عدلیہ کا موقف درست ہے۔ انتخابات 90دنوں میں کرانا ہونگے وہ صحیح ہے کیونکہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد آئین ہرحال میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے اور اس پابندی سے کوئی فرار ممکن نہیں۔ اگر ایک دفعہ آئین کی اس پابندی سے فرار کا راستہ نکال لیا گیا تو پھر پاکستان میں کبھی آئین کے مطابق انتخابات نہیں ہو سکیں گے ۔ ماضی میں جو فوجی آمر 90دن میں انتخابات کرانے کیلئے اقتدار پر قبضہ کرتے تھے اور 10 ، 11 سال تک انتخابات نہیں کراتے تھے ، انہیں بھی قوم کے مجرموں کی تاریخی فہرست سے نکالنے کا جواز فراہم کر دیا جائے گا ۔ کیونکہ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ 90دن میں انتخابات کرانے کے حالات نہیں ہیں ۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیس کی پیروی درست طریقے سے نہیں کی ۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات میں التواء کی بجائے حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ازخود نوٹس کیس سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کو چیلنج کرتی۔ حکومت نے اس نکتے پر وہ آئینی لڑائی نہیں لڑی ، جو اسے لڑنی چاہئے تھی حالانکہ ازخود نوٹس کیس میں تشکیل کردہ بنچ میں شامل بعض معزز جج صاحبان نے خود یہ معاملہ اٹھایا اور کہا کہ پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کو آئین کے مطابق دیکھنا چاہئے ۔ اسی طرح حکومت نے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بنچ بنانے کے اختیارات سے متعلق ’’ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ‘‘ پارلیمنٹ سے منظور کرایا ۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ فیصلے سے پہلے وہ اس معاملے پر الگ آئینی پٹیشن دائر کرکے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بنچ بنانے کے اختیارات کو چیلنج کرتی اور اپنے موقف کا بھرپور آئینی بنیادوں پر دفاع کرتی ۔ حکومت نے دیکھا کہ اس موقف کو بھی سپریم کورٹ کے بنچ میں شامل ججز نے خود اٹھایا ۔
حکومت نے ازخود نوٹس کیس میں یہ سوال بھی درست طریقے سے نہیں اٹھایا کہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات پہلے ہو جائیں تو بعد میں قومی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات میں دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں کیسے قائم کی جائیں گی ، جو آئینی تقاضا ہے ۔ یہ سوال بھی بنچ کے جج صاحبان نے ہی اٹھایا ۔ حکومت نے اس نکتے پر بھی زیادہ زور نہیں دیا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت خود 90دنوں میں انتخابات کا اعلان کردیتی۔ عمران خان کا اسٹینڈ صحیح اور آئینی ہے۔
اسمبلیوں کی تحلیل ، ایک ساتھ عام انتخابات نہ ہونے سے آئینی پیچیدگیاں پیدا ہونے اور چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بنچ بنانے کے اختیارات پر حکومت کو کیس کی سماعت کے دوران جو آئینی لڑائی لڑنی چاہئے تھی ، وہ اس نے نہیں لڑی ۔ حکومت کیس میں انتخابات کیلئے فنڈز اور سیکورٹی نہ ہونے کے ایسے بہانے کرتی رہی ، جنہیں آئین قبول نہیں کرتاحکومت غیر آئینی گراونڈز پر لڑتی رہی ۔ حکومت نے کابینہ ، پارلیمنٹ اور اتحادی جماعتوں کے فورم کو عدالتی فیصلوں کو مسترد کرنے کے لئے استعمال کیا ۔ یہ اس کی بنیادی غلطیاںہیں ۔ حکومت نے چیف جسٹس کے خلاف ایک محاذ بنا لیا اور دفاع میں چیف جسٹس کا ردعمل بھی متوقع تھا ۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ء کے ذریعے یقیناً اس قانون میں وہ ترامیم کی گئی ہیں ، جن کا مطالبہ بہت پہلے سے بار کونسلز اور سول سوسائٹی کے دیگر حلقوں کی طرف سے کیا جا رہا تھا ۔ لیکن یہ بل لانے کا بہتر وقت نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے اس بل کی منظوری کے خلاف آئینی درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے آٹھ رکنی بنچ بنانے کا فیصلہ کیا ۔ حکومت کو چیف جسٹس کے بنچ بنانے اور بل کو غیر موثر قرار دینے کے فیصلوں کا غیرعدالتی فورمز پر مقابلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ عدالت کے اندر آکر پارلیمنٹ کے اختیارات کا دفاع کرنا چاہئے ۔
سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا ۔ ورنہ ملک مزید بحرانوں کا شکار ہو گا کیونکہ یہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کی لڑائی پنجاب پر اقتدار کے قبضے کےلئے سیاسی جماعتوں کی لڑائی کا نتیجہ ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں پنجاب کی بڑی پارٹیاں ہیں ۔ ان کی قیادت سندھ اور بلوچستان کی سیاسی قیادت کی طرح کمزور نہیں ہے اور عدلیہ بھی تقسیم کے باوجود کمزور نہیں ہے ۔ یہ لڑائی ملک کیلئے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا یہ صائب مشورہ ہے کہ سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)