وفاق اور پنجاب کی نگراں حکومتوں نے رمضان المبارک کے دوران غریب عوام کی اشک شوئی اور اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لئے دس کلو آٹے کا تھیلا فی خاندان دینے کا اعلان کر کے غریب عوام کو رمضان کے روزوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑا کر دیا ۔ جن حکمرانوں کو عوام کی غربت نظر نہیں آتی وہ آٹا تقسیم پوائنٹس پر جم غفیر دیکھ کر وطن عزیز میں غربت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ دو وقت کی روٹی کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہو کر آٹے کا حصول ایک جاں جوکھوں کام ہے جس میں اب تک متعدد افراد اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ ظالم بھوک کو مٹانے کےلئے جان کی بازی ہارنا صرف وطن عزیز کے باسیوں کے نصیب میں لکھا ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں اس طرح کے واقعات رونما ہونے کی صورت میں حکمرانوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آٹا مفت تقسیم کرنے سے ملک سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے‘ اس نے غریب کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ مہنگائی ختم کرنے کے دعوے داروں نے مہنگائی کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان حکومت کے جاری کردہ احساس پروگرام اور ہیلتھ پروگرام کو بلاک کر کے پس پشت ڈال دیاگیا ہے۔ غریب عوام کو صحت کی جو سہولت عمران خان نے مہیا کی تھی، وہ ملکی تاریخ میں بے مثال تھی اور عوام اس سے بے انتہافائدہ اٹھا رہے تھے۔ مہنگا علاج غریب عوام کی دسترس میں آ گیا تھا اور ہیلتھ سیکٹر میں بے پناہ ترقی ہو رہی تھی۔ اور عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے اوپر آ رہی تھی مگر عوام دشمن حکمرانوں کو یہ گوارہ نہ تھا۔ لہٰذا غریب عوام سے صحت کی سہولت واپس لے لی گئی۔
پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی عوام پر ہر پندرہ دن کے بعد مہنگائی کی تلوار لٹک جاتی ہے۔ حکومت کا قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ رمضان المبارک میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ منافع خور مافیا عوام سے اپنی من مانی قیمتیں وصول کر رہا ہے۔ قانون کی رٹ سے مبرا مارکیٹیں منافع خوروں کے قبضے میں جکڑی ہوئی ہے۔ غریب عوام مارے مارے پھر رہے ہیں۔ سڑکوں پر فقیروں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس تمام صورت حال سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہاہے۔ غریب کو جب دو وقت کی روٹی نہیں ملے تو امن و امان کی صورت حال بے قابو ہو جاتی ہے اور ڈاکہ زنی و چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ لوگ چھین کر کھانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ بے حال عوام اس صورتِ حال کو برداشت نہیں کر پاتے۔ ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ڈاکو پکڑے جانے کے بعد لوگوں کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتا ہے۔ یہ عوامی غصہ نہیں تو اور کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ملتان میں دو اور کراچی میں ایک واقعہ میں لوگوں نے ڈکیتی واردات کو ناکام بناتے ہوئے ڈاکوئوں کو پکڑ کر انہیں تشدد کرکے ہلاک کر دیا۔ یہ تمام واقعات حکمرانوں کے لئےلمحۂ فکریہ ہونے چاہئیں مگر ان کو کوئی خبر نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات ہی معاشرے کو سول وار کی طرف لے کر جاتے ہے۔مسلح جتھوں کا وجود اس چھینا جھپٹی میں خطر ناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔کے پی کے میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ، کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ، کراچی، لاہور کے شہری علاقوں میں ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں یہ ثابت کر رہی ہیں کہ حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کی تمام کوشش اس بات پر ہے کہ کسی طرح تحریک انصاف اور عمران خان کی پاپولیرٹی کو ختم کر کے الیکشن سے راہِ فرار حاصل کیا جائے۔ عوام کی اقتصادی و معاشی حالت کو بہتر بناکر خوشحالی لانے کا کوئی پروگرام حکومت کے پاس نہیں ہے۔ کپاس کی گزشتہ چالیس برسوں میں کم ترین پیداوار کی وجہ سے ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر سسکیاں لے رہا ہے۔ ڈالر کے ریٹ بڑھنے ، آئی ایم ایف کے پروگرام میں تاخیر اور فارن کرنسی ذخائز میں کمی کی وجہ سے ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اب تو عوام کو جان بچانے والی ادویات کی دستیابی بھی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ گندم کی پیداوار بے وقت کی بارشوں اور ژالہ باری کے باعث سات فی صد تک متاثر ہوئی ہے اور23ارب روپے کا نقصان ہونےکا اندیشہ ہے۔ کپاس اور چاول سے زیادہ زر مبادلہ کمانے کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم، کپاس اور دیگر اشیائے خور و نوش در آمد کرنا پڑیں گی جس کے لئے زر مبادلہ کے بھاری اخراجات ہوں گے ،ایسی صورت میں مہنگائی کا گراف بڑھتا رہے گا۔ چینی کی قیمتوں کو بھی پر لگ رہے ہیں اور چینی کا ریٹ مارکیٹ میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور شدید غفلت کی وجہ سے مارکیٹ میں حکومت کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آ رہا۔
بین الاقوامی سطح پر دوست ممالک بھی کمزور حکومت کا ساتھ دیتے نظر نہیں آ رہے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پاکستان کے حوالے سے پروگرام تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ محمداسحاق ڈار جو پنجابی فلموں کے ولن کی طرح میڈیا پر آ کر بڑھکیں مارتے رہتے ہیں،اپنی کسی بھی پالیسی کو نافذ کرنے اور کروانے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں، ان کا کام اب صرف پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا پندرہ روز ہ اعلان ہی رہ گیاہے۔ ان کی معاشی ڈینگیں ملک معیشت میں کوئی بہتری لانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس تمام معاشی صورت کا علاج صرف اور صرف فوری طور پر صاف، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ہے۔ جب تک شفاف الیکشن نہیں ہوں گے معاشی صورت حال ابتری کی جانب گامزن رہے گی۔
مزید خبریں
-
ہم ہیں متجسّس کہ نیا صدر نہ جانےقوم اور وطن کے لئے اچّھا کہ بُرا ہو؟ امریکۂ اعظم کے شب و روز بدلنے ڈونلڈ ٹرمپ...
-
پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی قربانیاں اور دہشت گردی کے خلاف انکا کردار ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا سنہری باب...
-
لوگ بتاتے ہیں کہ جب میںپیدا ہوا تھا،تب مجھے دیکھنے کے بعد صدمے سے میری ماں مرگئی تھی۔ یہ سنی سنائی بات ہے ہر...
-
فلسطین، اسرائیل جنگ بندی معاہدہ یقیناً ایک پائیدار عمل کی ضمانت ہونا چاہئے، گزشتہ روز غزہ میں فلسطینی...
-
گزشتہ دنوں پشاور میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سیاسی قائدین سے ملاقات کی ۔ جیسا کہ اس ملاقات کا مقصد اور...
-
پاکستانی عدلیہ کا یہ رجحان، نیا نہیں کہ سیاست دانوں کو تختہ مشق بنایا جائے۔ ماضی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں نے...
-
روانڈا کا صدر تبدیل ہو تو شاید روانڈا پر بھی اثر نہ پڑے مگر جب امریکی صدر بدلتا ہے تو دنیا بدلتی ہے۔ امریکی صدر...
-
190 ملین پائونڈ کے عنوان سے معروفِ زمانہ مقدمے کا فیصلہ آگیا۔ اِس طلسمِ ہوش رُبا کا پہلا باب،...