پنجاب کی تحلیل شدہ اسمبلی کے انتخاب کے مسئلے پرانتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ میں آئینی اختلافات سے ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے جسے معمول پر لانے کے لئے سنجیدہ فکر سیاسی شخصیات نے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پیش پیش ہیں جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا رویہ بات چیت کے ذریعے معاملات طے پانے کے معاملے میں مشروط اور غیر واضح ہے۔ سپریم کورٹ نے انتخابی اخراجات کے لئے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کی فراہمی کے لئے سٹیٹ بنک آف پاکستان کو حکم دیا تھا جس کی ڈیڈ لائن پیر کو گزر گئی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ یہ معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے زیر غور آیا جس نے اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کو پیش کردی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسے ملک کے سب سے بڑے پالیسی ساز ادارے پارلیمنٹ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں اس سلسلے میں ضمنی گرانٹ کی منظوری کے لئے بل پیش کیا جسے کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔ وزیر قانون نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ انتخابی فنڈ جاری کرنے کا اختیار سٹیٹ بنک کو حاصل نہیں۔ قائم مقام گورنر سٹیٹ بنک کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہم نے عدالت کے حکم پر رقم مختص کردی تھی لیکن ہمیں اس کے اجرا کا اختیار حاصل نہیں۔ یہ استحقاق وزارت خزانہ، حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے، وہ فنڈ جاری کرے یا نہ کرے۔ چونکہ الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کی فراہمی کی ڈیڈ لائن پیر کو ختم ہوگئی ہے اس لئے اس حوالے سے نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس پر مختلف سطحوں پر غور جاری ہے۔ تحریک انصاف سپریم کورٹ پر زور دے رہی ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ کو حکم عدولی پر نااہل قرار دیا جائے جبکہ حکومتی ذمہ داران کا اس معاملے میں مختلف موقف ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں کوئی نیا حکم فی الحال جاری نہیں کیا لیکن منطقی طور پر یہ معاملہ اس کے زیر غور بھی ہوگا۔ آنے والے دنوں میں عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ میں یہ آئینی رسہ کشی جاری رہتی ہے تو یقیناً اس سے مسائل بڑھیں گے جس کا موجودہ معاشی سیاسی اور آئینی بحرانوں کے مشکل دور میں ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت کے استحکام، تحفظ، آئین کی حکمرانی اور ملک کے مفاد میں اس وقت مفاہمت اور رواداری کی فضا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے تمام سیاسی مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور انہیں مشترکہ موقف اور لائحہ عمل اپنانے کے لئے قائل کرنے کی غرض سے محب وطن سوچ رکھنے والوں نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی، پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پیش پیش ہیں۔ انہوں نے حکومتی زعما اور تحریک انصاف کے راہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اس وقت اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ملک کی تمام اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی وقت میں ہوں جبکہ تحریک انصاف پنجاب میں فوری الیکشن کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اسی لئے اس نے صوبائی اسمبلی تحلیل بھی کی تھی لیکن معروضی حالات اس کے حق میں نہیں۔ اگر کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوتی ہے اور اس میں ایک ہی روز تمام اسمبلیوں کے انتخابات پر اتفاق ہوجاتا ہے تو اکتوبر یا اس سے پہلے بھی الیکشن کا بگل بج سکتا ہے ۔ قانونی ماہرین کے رائے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت میں تقسیم بجائے خود ادارے اور نظام انصاف کے لئے نقصان دہ ہے۔ وزیراعظم کے بقول ملک اس وقت ایک بڑے معاشی دباؤ سے گزر رہاہے اور دشمن قوتیں اسے نقصان پہنچانے کے لئے موقع کی تاک میں ہیں۔ ایسے میں ریاستی اداروں سمیت ہر محب وطن پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچے اور اس کے استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
صرف لکھا ہی نہ جائے بلکہ کہا اور سمجھا بھی جائے خواہ میں کسی اخبار یا ٹی وی چینل کی سکرین پر آئیں بائیں شائیں...
سرِ دست مقابلہ اسلام آباد وسائل اور کے پی کے وسائل کا دکھائی دینے لگا ہے۔ آمنے سامنے اس وقت ایک صوبائی اور...
لیتی نہیں نام واپسی کا آجائے جب ایکبار مہنگائی کیا چیز ہے مستقل وطن میں؟ مہنگائی، سدا بہار مہنگائی
طوطیا ……مبشر علی زیدیخوش آمدید۔ چائے پئیں گے؟ڈوڈو کا طوطا بولا۔میرا پانچ سال کا بیٹا بہت خوش ہوا۔پاپا...
دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کا مہینہ ہے تو دوسری جانب ملک میں موجود مسیحی برادری...
میں اپنے بچپن سے یاد کروں تو اس وقت بڑی بوڑھیاں کہا کرتی تھیں۔ ’’جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘۔ ذرا بڑے ہوئے...
آئینی طریقے سے اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی کی سیاست تین نکات پر محیط ہے۔ ایک سوشل میڈیا جس کے ذریعے...
تبسم صاحب کا ابھی تھوڑا سا ذکر باقی ہے ،موصوف انتہائی شریف النفس، وضع دار اور بھولے بھالےتھے ۔ ان کے پندرہ...