عمران خان تو اب خود بھی این آر او مانگ رہے ہیں،خواجہ آصف

19 اپریل ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک میں الیکشن ایک دن کرائے جائیں، فنڈز سے متعلق پارلیمنٹ نے پروپوزل کو مسترد کردیا ہے ، فنڈزسے متعلق پارلیمنٹ کی پوزیشن واضح ہے ، اس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ بہت نقصان ہوا،ہم سے کہا گیا کہ دو ججوں کی تعیناتی مان کر عدلیہ سے تعلقات بہتر بنائیں،عمران خان تو اب خود بھی این آر او مانگ رہے ہیں، پنجاب میں پہلے الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی الیکشن نتائج پر اثرپڑے گا ،مختلف ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں آئینی ڈیڈ لاک ہے ، عمران خان توکہتےہیں کہ دوتہائی اکثریت نہ ملی تو پھراسمبلیاں توڑوں گا،جو حالات مجھے نظر آرہے ہیں ان میں مجھے الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے،سینئرصحافی و تجزیہ کار ،حامد میر نے کہا کہ جو اصلیت ہے جو سچائی ہے وہ ہمارے سیاستدان اپنی زبان پر نہیں لاتے ۔ وہ زبان پر لاتے نہیں ہیں تو میڈیا پر نظر آتی نہیں ہے اگر میڈیا تھوڑی بہت سچائی سامنے لانے کی کوشش کرے توپھر میڈیا کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو آج کئی مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں سے ایک بار پھر ریلیف مل گیا ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ آپ کی انفارمیشن حقیقت سے خاصی قریب ہے، یہ چیزیں اسی argument کے گرد گھوم رہی تھیں جو آپ نے بتایا ہے۔میں آپ کے ساتھ ایک wake سی بات کرسکتا ہوں کہ جو پارلیمنٹ نے کل لے لی ہے فنڈز مہیا کرنے پر پوزیشن جو وہ بالکل واضح ہے، یہ آرگیومنٹ جو ہے کہ پارلیمنٹ ultimate authority تھی ان فنڈز کو جاری کرنے کی، انہوں نے اس پروپوزل کو مسترد کردیا ہے، پارلیمنٹ کی پوزیشن واضح ہو کر سامنے آگئی ہے، اس کے ساتھ جو دوسرے حالات ہے جو پہلے ہم نے بات کی ہے سیکیورٹی کے حوالے سے ، وہ اور الیکشن کمیشن بھی، میں ابھی ٹکرز دیکھ رہا تھا ٹی وی کے اوپر چل رہے تھے الیکشن کمیشن نے بھی کہا ہے کہ ایک وقت پر الیکشن کروائیں، مختلف اوقات پر الیکشن ہوئے تو انارکی کا خدشہ ہے، آلریڈی پولیٹیکل ٹینشن بہت انتہا پر پہنچی ہوئی ہے، اس وقت تشویشناک صورتحال ہے پولیٹیکل ٹینشن کی، الیکشن میں ویسے بھی ٹمپریچر ہائی ہوجاتا ہے، لوگ اپنی پوزیشنز پر آجاتے ہیں اور آمنا سامنا ہوجاتا ہے جس طرح بیٹل فیلڈ میں ہوتا ہے، اس صورتحال میں الیکشن ہوئے جو کہ پہلے ہی ٹینشن کی صورت ہے تو خدشہ ہے مزید deteriate ہوجائے گی اور الیکشن کی ایکسرسائز پر بہت بڑا سوالیہ نشان آجائے گا۔ میں عدالت کوقطعی طور پر predict نہیں کروں گا، ان کی اپنی حدود میں ان کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش نہیں کروں گا، جو حالات مجھے نظر آرہے ہیں ان میں مجھے الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے، قطعی طور پر ہوتے نظر نہیں آرہے، باقی اللہ غیب کا علم جانتا ہے، میں سیاسی ورکرکی حیثیت سے جو حالات واقعات دیکھ رہا ہوں، اس وقت سیاسی موسم کے جو آثار مجھے نظر آرہے ہیں اس میں یہ الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے، جس طرح آپ نے کہا ہے کہ مختلف ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں، ایک قسم کا آئینی ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے، اس میں الیکشن کروانا بذات خود میرا خیال ہے وہ پاکستان اور پنجاب کی عوام کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوگا، خیبرپختونخوا میں تو nobody interested to hold elections over there enough یہ صرف پنجاب کا جو ہے، شاہزیب دیکھیں پنجاب پر کیوں insist کیا جارہا ہے؟، یہ 65فیصد آباد ی کا صوبہ ہے، اس میں الیکشن پہلے کروادیئے جائیں اور باقی ملک میں الیکشن تینوں صوبوں میں بھی اور وفاق میں بھی بعد میں کروائے جائیں تو پنجاب اس پوزیشن میں ہوگا کہ ان الیکشنز کو manipulate کرسکے، اب جب پنجاب کو manipulate کرنے کی اجازت دیدیتے ہیں پہلے الیکشن کروا کے، وہاں پر جو بھی سیاسی حکومت آتی ہے، جو بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آتی ہے وہ اس پوزیشن میں ہوگی کہ وہ manipulate کرسکے گی الیکشن سے پہلے، الیکشن والے دن اور الیکشن کے بعد بھی manipulation ہوسکے گی، اس صورتحال میں آپ وفاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچارہے ہیں، آئین کے خالق جو تھے ان کے ذہن میں جو بھی ترامیم بعد میں آتی رہیں ان کے خالق کے دماغ میں یہی تھا کہ ایک دن الیکشن کروا کے الیکشن کے اوپر کم از کم چانسز رکھیں سوالیہ نشان اگر الیکشن پر آئیں تو کم از کم ہو۔ میں optimistic ہوں کہ یہ ون ٹائم اگر ایکسرسائز ہوگی تو سیکیورٹی کے خدشات eliminate تونہیں ہوں گے لیکن ون ٹائم ایکسرسائز میں رسک جو ہے خدانخواستہ کسی انارکی کا یا کسی لاء اینڈ آرڈر سچویشن کا ون ٹائم ہوگا، یہ چار پانچ مہینوں پر extend نہیں ہوگا، دوسری بات الیکشن کمیشن بھی کہہ رہا ہے ہمارے لیے زیادہ آسانی ہوگی کہ الیکشن ایک دن ہوں جس طرح ماضی میں ہوتے رہے ہیں، ان الیکشنوں کو مینج کرنا بھی آسان ہوگا، ہماری سیاسی تاریخ یا انتخابات کی تاریخ اس کی بیک ڈراپ میں دیکھا جائے تو وہ زیادہ authentic ہوگی اگر ایک ہی وقت میں الیکشن کرواتے ہیں۔ میرا نہیں خیال ، ہوسکتا ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرا optimism misplaced ہے لیکن میں سمجھتا ہوں سچویشن آخری چند ہفتوں میں یا ڈیڑھ دو مہینے میں یا آنے والے جو گزر گئے ہیں اور آنے والے دنوں میں سچویشن بہتر ہوجائے گی، ہم فکرمند ضرور ہیں کوئی ایسی اینزائٹی والی بات نہیں ہے، باقی عوام کی عدالت اس زمین پر ultimate عدالت ہے، ان کا جو بھی verdict ہو ا وہ قابل قبول ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ حالات بہتر ہوں گے، آئی ایم ایف کا ارینجمنٹ فائنلائز ہوجائے گا، اس کے بعد ان کے ساتھ ہم جو بھی معاشی اصلاحات کرنا چاہیں گے اس کا ڈائریکٹ رزلٹ پبلک اوپینین پر پڑے گا، بجٹ آرہا ہے، بجٹ ہم دیں گے اس میں ریلیف دینے کی کوشش کریں گے، وہ الیکشن کا بجٹ ہوگا، یہ سارے فیکٹرز ابھی آنے ہیں، اس لیے آج اپریل کے مڈل میں ہم کوئی نتیجہ نہ نکالیں، میرا خیال ہے we can talk about may be 2 months or 3 months later اللہ خیر کرے، میں ایک بات بتادوں جس الیکشن کی آپ اور میں بات کررہے ہیں، سارا ملک بات کررہا ہے، سارے ادارے بات کررہے ہیں، عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے دو تہائی اکثریت نہیں ملی تو میں الیکشن کا رزلٹ تسلیم نہیں کروں گا، سادہ اکثریت میرے پاس ہوگی میں پھر الیکشن کروادوں گا، میں پھر اسمبلی توڑ دوں گا، ایک شخص کی خواہش پر اگر آپ نے سارا ملک ، ساری قوم ایک اسپن میں آئی ہوئی ہے یہ ممکن نہیں ہے، اس کی جو بھی کاسٹ ہو۔میں نے آپ کوبتایا ہے جو بندہ یہ بات کہہ رہا ہے اور جو بندہ بار بار ،خیر اب وہ خود بھی این آر او مانگ رہے ہیں، ان کے حواریوں اور ان کے کلوز ساتھیوں کا آیا ہے کہ مذاکرات کیلئے شرط ہے کہ پہلے عمران خان کے خلاف سارے مقدمے ختم کیے جائیں۔ اس سوال پر کہ سرا ج الحق نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی تھی لیکن میڈیا پر خبریں ضرور چلیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ میں اس پر کمنٹ نہیں کرتا، مذاکرات کی خواہش کرنا بڑی اچھی بات ہے سیاست میں، سیاست میں ساری باتیں مذاکرات سے ہی ہوتی ہیں، مذاکرات کا فریم ورک، ایجنڈا یا مقاصد پہلے define ہوجائیں بجائے اس کے کہ ابھی تو ہم نے صرف الیکشن کے متعلق مذاکرات کرنے ہیں میں اس کا حامی نہیں ہوں، یہ میری ذاتی رائے ہے، میں اپنی پارٹی کی رائے نہیں دے رہا، اس طرح کے مذاکرات تو ماضی میں بہت ہوئے ہیں اور ان کا کیا رزلٹ نکلا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ آپ لوگ آئے تھے ووٹ کو عزت دو اور سارے نعرے لگا کے مگر کل وزیرقانون نے بتایا کہ اکتوبر تک بھی جنرل باجوہ کے کہنے پر عدالت کے جج کے حوالے سے آپ رکاوٹیں ہٹارہے تھے، چیف جسٹس کی بات مان رہے تھے، نومبر میں انہیں جانا تھا اس سے پہلے وہ توسیع مانگ رہے تھے یہ بات بھی بتائی جاچکی ہے، آپ لوگ خود یہ سارے کام کررہے تھے؟ خواجہ آصف نے کہا کہ آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں ، میں آپ کی بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ یہ سارے واقعات جو آپ بیان کررہے ہیں یہ ہوئے ہیں اور ان واقعات کی وجہ بھی آپ کو معلوم ہے، میں اسی لیے کہہ رہا ہوں، آپ نے نشاندہی کر کے میری مدد کی ہے کہ یہ واقعات جن کی طرف آپ اشارہ کررہے ہیں ان کی روک تھام کیلئے ہمیں پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے، پسپائی آئینی پسپائی ہوگی کہ واپس اپنی حدود میں جائیں اور اپنی حدود میں رہ کر اس ملک کیلئے عوام کیلئے اپنا کردار ادا کریں، بجائے اس کے کہ میں عدلیہ میں مداخلت کروں، عدلیہ پارلیمنٹ میں مداخلت کرے، پارلیمنٹ اسٹیبلشمنٹ میں مداخلت کرے، اسٹیبلشمنٹ الیکشن میں مداخلت کرے ، یہ نہیں ہوگا ، یا میڈیا اپنے مفادات کا تحفظ کرے ، بگ بزنس جو ہے ہر ٹیل کے ساتھ چمٹ جائے اور وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے، No, we have to change اس ملک کا بننا کیا ہے، اس ملک کی assistance کو ہم نے اگر گارنٹی کرنا ہے ، under write کرنا ہے تو خدا کیلئے یہ جو دروازے کھٹکھٹائے جارہے ہیں مذاکرات کے لئے this is not enough ۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ آپ amend your fances with عدلیہ ، ان دو ججوں کو آپ give in کردیں ، چیف جسٹس صاحب کو ان کو oblige کردیں کیونکہ وہ ان دو ججوں کو سپریم کورٹ میں لانا چاہتے ہیں تو we step back ہم نے بھی we created space or room for judiciary کہ اس میں دو ججوں ایسے induct ہوجائیں جو نارمل پراسس میں ہوسکتا ہے بلاک ہوجاتے۔ یہ ایک قسم کا sweetner تھا ہمارے اور عدلیہ کے تعلقات کیلئے۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ بہت مہنگا پڑا ہمیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑی، یعنی وہ کیا کہتے ہیں سو پیاز بھی کھائے ساتھ ، میں اب تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔میزبان شاہ زیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت اگر ن لیگ الیکشن نہیں چاہ رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں نظر آرہا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف زیادہ مقبول ہے ۔ اس وقت سپریم کورٹ اور سیاسی ایوانوں میں جو فوکس ہے وہ بھی پنجاب کے صوبائی کے انتخابات پر ہی ہے ۔ اس ساری صورتحال میں پنجاب اسمبلی سے صرف چار دن بعد تحلیل ہونے والی خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے ۔ جبکہ سپریم کورٹ کی بھی ساری توجہ پنجاب میں انتخابات پر ہے۔شاہ زیب خانزادہ نے مزید کہا کہ عمران خان کو آج کئی مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں سے ایک بار پھر ریلیف مل گیا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو آٹھ مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں تین مئی تک توسیع کردی ہے۔ جبکہ لاہو رہائی کورٹ نے عید کی تعطیلات کے دوران زمان پارک میں آپریشن کے خدشے پرعمران خان کو ہراساں کرنے سے روک دیا ہے۔ سینئرصحافی و تجزیہ کار ،حامد میر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اس لئے کہتا تھا کہ مجھے الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے کہ جو اصلیت ہے جو سچائی ہے وہ ہمارے سیاستدان ہیں وہ پوری سچائی اپنی زبان پر لاتے نہیں ہیں ۔ وہ زبان پر لاتے نہیں ہیں تو میڈیا پر نظر آتی نہیں ہے اگر میڈیا تھوڑی بہت سچائی سامنے لانے کی کوشش کرے توپھر میڈیا کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ آنے والے دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئیں گے کہ آپ کو خود بخود پتہ چلے گا کہ میں مارچ کے مہینے سے کیوں کہہ رہا تھاکہ کوئی الیکشن نہیں ہونے۔سپریم کورٹ بار بار کہہ رہی تھی کہ الیکشن کراؤ تاریخ دے رہی تھی الیکشن نہیں ہورہا۔آپ کے شو پر وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے چھوٹی سی بات ظاہر کی ہے حالانکہ وہ بہت بڑی بات ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مداخلت پرسپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کا معاملہ اس کا جو ڈیڈ لاک تھا حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان وہ ختم ہوا تھا۔اس سے آپ کو سمجھ آگئی ہو گی کہ باجوہ صاحب جب یونیفارم میں تھے تو وہ کہاں کہاں پر کیسے کیسے مداخلت کررہے تھے اور مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتی ہے ۔ اس نے کس طرح سے ایک سٹنگ آرمی چیف سے ججز کی تقرری کے مسئلے پرڈکٹیشن لی اور اس کے بعد چپ کرکے بیٹھ گئی۔ابھی بھی وہ عمران خان کو کہتے ہیں کہ تم سلیکٹڈ ہو تم دھاندلی سے آئے تھے حالانکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ دھاندلی کس نے کی تھی جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی ۔ اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو آنے والے دنوں میں تھوڑا تھوڑا مولانا فضل الرحمٰن ، بلاول ، شہباز شریف بولیں گے آخر میں عمران خان بھی پورا سچ سامنے لے کر آئیں گے۔لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس سے ان سب کو فائدہ ہوگاان کو نقصان ہی نقصان ہے۔اسلام آباد میں جو ہونا ہے وہ سب کو پتہ ہے لیکن وہ اپنی زبان پر لانے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔