مرحلہ وار انتخابات سے انارکی پھیلے گی، تشدد میں اضافہ ہوگا، الیکشن کمیشن

19 اپریل ، 2023

اسلام آباد (انصار عباسی) ایک بڑی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے روبرو منگل کو جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں پنجاب میں عام انتخابات 8؍ اکتوبر 2023ء کو ہی کرانے کی بات دہرائی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر کمیشن کے شیڈول پر عمل نہ کیا گیا تو اس سے ملک میں افراتفری اور بحران پیدا ہو جائے گا۔ رپورٹ میں الیکشن کمیشن نے لکھا ہے کہ ’’ملک میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے اور صرف یہی نہیں، یہ انتخابات آزاد، شفاف اور منصفانہ بھی ہونا چاہئیں تاکہ ووٹرز آزادی اور بلا خوف و خطر پر امن ماحول میں اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں۔ یہاں یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ الیکشن کیلئے 8؍ اکتوبر 2023ء کی جس تاریخ کا اعلان پہلے کیا گیا تھا وہ زمینی حقائق دیکھتے ہوئے کیا گیا تھا او یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر اس شیڈول پر عمل نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ ملک میں افراتفری اور بحران پیدا ہوگا، جس کی الیکشن کمیشن آف پاکستان ذمہ داری نہیں لے سکتا۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس تاریخ کا اعلان انٹیلی جنس کی بنیادوں پر ملنے والی رپورٹس اور سندھ و پنجاب، میانوالی، بھکر اور ڈی جی خان میں جاری انٹیلی جنس آپریشنز کی بنیادوں پر کیا تھا۔ یہ انٹیلی جنس آپریشنز پاک فوج، پنجاب رینجرز اور سندھ رینجرز کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ یہ آپریشن کم از کم چار سے پانچ ماہ میں مکمل ہو جائے گا اور ممکنہ طور پر اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو موثر انداز سے دبایا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ان آپریشنز میں مصروف ہیں لہٰذا الیکشن ڈیوٹی میں انہیں مقرر کرنے سے انتخابی سرگرمیاں دہشت گردوں کی وجہ سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، اور انتخابی عمل کے دوران تشدد کا خطرہ ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موجودہ سیاسی تقسیم کو سیاسی اتفاق رائے میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم ہو سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابی لحاظ سے دیکھیں تو سیاسی تقسیم تشدد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے اور اس سے انتخابات کے دوران عوام کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ کمیشن نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان برداشت ا ور توازن کے قیام کیلئے کچھ حدود اور اصولوں کا تعین ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ جیسا کہ الیکشن ڈیوٹی کیلئے مسلح افواج کی خدمات فراہم نہیں کی جا رہیں، پنجاب میں پولیس کے تین لاکھ 85؍ ہزار اہلکاروں کی قلت ہے اور مسلح افواج کی مدد کے بغیر اس قلت کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں دستیاب پولیس والوں کی تعداد 81؍ ہزار 50؍ ہے جبکہ الیکشن کرانے کیلئے مجموعی طور پر 4 لاکھ 66؍ ہزار 508؍ پولیس والوں کی ضرورت ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کے عمل میں قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے مدد نہ کی تو بالخصوص ووٹر، الیکشن اسٹاف اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانا مشکل ہوگا اور یہ سب انتہائی حد تک خطرے کا سامنا کریں گے اور نقصان کا اندیشہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے مرحلہ وار انتخابات کرائے تو فورسز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تعینات کرتے ہوئے 6؍ مراحل میں انتخابات کرائے جا سکیں گے اور اس طرح کیا جائے گا تو الیکشن مکمل ہونے میں ایک مہینہ لگے گا اور قومی خزانے پر مزید بوجھ پڑے گا۔ اس طرح الیکشن کرائے گئے تو یہ معاملہ کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخ یعنی 8؍ اکتوبر سے بھی آگے چلا جائے گا کیونکہ 6؍ مراحل میں الیکشن ہوں گے۔ کمیشن نے 1977ء کے عام انتخابات کا بھی حوالہ دیا جس میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تین دن کے فرق کے ساتھ ہوئے تھے۔ قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج کے اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کر دیا تھا اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح الیکشن کرانے کے نتیجے میں پرتشدد واقعات کا بھی اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ تخریب کار افراد کے پاس منصوبہ بندی کرکے حملوں کا موقع ہوتا ہے، بجائے اس کے کہ ایک ہی دن الیکشن کروائے جائیں اور ان کے پاس محدود موقع ہو۔