برین ڈرین، ایک چیلنج؟

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
27 اپریل ، 2023

سب سے پہلے آپ سب کو گزشتہ عید مبارک۔ میں سمجھتا ہوں کہ عید ہو ،دیوالی ہو یا کرسمس، غریبوںکا خیال رکھے بغیر خوشی کا کوئی تہوار نہیں منایا جاسکتا، دنیا کے ہر مذہب نے ایسے خاص موقعوں پر خصوصی طورپر غریب، نادار لوگوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عیدکے دن سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ بھی میری نظر سے گزری جس میں ایک نوجوان ڈاکٹر کے بزرگ والدلالہ کریم نہایت دُکھی انداز میں اپنے بیٹے کی بیرون ملک روانگی کے موقع پر حالِ دل بیان کررہے تھے کہـ" آج میں نے اپنے بیٹے ڈاکٹر محمد ماجد خان کو انگلینڈ رخصت کیا،ہم دونوں اس بات پر اداس نہیں تھے کہ ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے بلکہ اس بات پر اداس تھے کہ ڈاکٹر بنایا پاکستان نے،پاکستان میں پروفیشنل ٹریننگ حاصل کی لیکن اب خدمت گوروںکی کرے گا"، والد صاحب کے بقول ان کا بیٹا پاکستان میں سروس کیلئے پرعزم تھا، تاہم ملکی ناسازگار حالات کی بناء پرآہستہ آہستہ حوصلہ ہارنے لگا،اس نے گوروں کے عالمی امتحان کی تیاری کی اور پہلے دو تحریری امتحان پاس کرلئے، باہر والوںنے رزلٹ دیکھ لئے اور چار مختلف جگہوں سے شاندار نوکری آفر کیـ’’اور بالآخر وہ ہیرا ہم سے چھین لیا جس کو پاکستان نے تراشا تھا۔‘‘بلاشبہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا اصل راز ایسے قابل اور ذہین لوگ ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں،ایسے لوگوں کی بدولت ملک تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتاہے، ہم اپنے آس پاس بھی ایسے خوشحال گھرانے دیکھتے ہیں جن کے ہنرمند فرد مہنگائی کا مقابلہ باہمی طور پر اپنی قوت خرید بڑھا کر کرتے ہیں جبکہ محدود ذرائع آمدنی والے لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ کر مسائل کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔اگر دورِجدید کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا انسانی سرمایہ نہ صرف اپنے آبائی ملک میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے بلکہ وہاں کی حکومتیں بھی دیگر ممالک سے قابل انسانوں کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھتی ہیں، ذہین لوگوں کی اپنے ملک سے نقل مکانی کو برین ڈرین (ذہانت کا انخلاء ) اوردوسرے ملک سےآمد کوبرین گین (ذہانت کا حصول) کا نام دیا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر امریکہ سپرپاور ہے تو اس کی بڑی وجہ دنیا بھر سے ذہین انسانوں کو وہاں اکٹھا کرکے انہیں اپنی صلا حیتوں کے اظہار کیلئے بہترین ماحول فراہم کرنا ہے، امریکی ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے بیشتر مغربی ممالک بھی پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک سے ذہین شہریوں کو اپنی طرف راغب کررہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے2020ء میں عالمی وباء کورونا کے بعد صرف دو سالوں میں لگ بھگ آٹھ لاکھ پاکستانی شہریوں نے ملک کو خیرباد کہا جبکہ غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے والوں کی کوششیں کرنے والوں کے درست اعداد وشمار کسی کو دستیاب نہیں، اپنی آنکھوں میں سنہرے سپنے سجائے ملک سے باہر جانے والے انتہائی تعلیم یافتہ پاکستانی شہریوںنے مشرق وسطیٰ، یورپ ، امریکہ ،کینیڈا وغیرہ کی طرف نقل مکانی کی۔ہمارے ملک میں ایسے بے شمار فارن ایجوکیشن کنسلٹنسی ادارے متحرک ہیں جو نوجوان اسٹوڈنٹس کی باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلے کیلئے رہنمائی کرتے ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد زیادہ تر نوجوان واپس اپنے ملک آنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ پارلیمنٹ میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس میں یہ ایشو ہائی لائٹ ہوا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سرکاری خرچے پر بیرون ملک پی ایچ ڈی کیلئے جانے والے 132اسکالرز کے ایک گروپ میں سے 80پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ دوسرے مرحلے میں بیرون ملک جانے والے 68اسٹوڈنٹس وطن واپسی سے انکاری ہوگئے۔اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانیوں کے ملک چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ناسازگار حالات ہیں،سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہورہی ہیں،پیداواری سرگرمیوں میں تعطل کا براہ راست اثرملازمتوں پر پڑا ہے،تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں برین ڈرین کی اصطلاح کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھنا چاہئے ، اگر سرپلس افرادی قوت میں سے کچھ لوگ اپنا مستقبل باہر وابستہ کرلیتے ہیں تو میری نظر میں یہ ملکی معیشت کیلئے اچھا شگون ہے، اوورسیز پاکستانی نہ صرف زرمبادلہ کمانے کا باعث بنتے ہیں بلکہ پبلک ڈپلومیسی کیلئے بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں،پڑوسی ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ان کے قابل شہری سیلیکون ویلی ، گوگل، مائکروسوفٹ سمیت متعدد عالمی اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ میری نظر میں برین ڈرین کے چیلنج سے نبزدآزما ہونے کیلئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کی قابلیت کے مطابق پاکستان میں اورباہر فارن کیریئر بنانے کیلئے بہترین مواقع فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے، بیرون ملک خدمات سرانجام دینے والے ہر پاکستانی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان اس کی دھرتی ماتا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں رزق تلاش کرے لیکن اس کا دل اپنی جنم بھومی پاکستان کے ساتھ دھڑکنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)