سنجیدہ و بامقصد مذاکرات ضروری

اداریہ
29 اپریل ، 2023

حالیہ برسوں کے دوران ملک میں جس نئے سیاسی کلچر نے جنم لیا اور پروان چڑھا ، اس کا انجام ریاستی اداروں کے مابین کھینچاتانی، تباہی کے دہانے پر پہنچی معیشت اور دہشت گردوں کے دوبارہ منظم ہونے پر منتج ہونا منطقی عمل ہے تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ درپیش صورتحال کا حل بھی سیاسی جماعتوں ہی کے پاس ہے۔ یہ بات سب پر واضح ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں قومی آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے جبکہ پی ڈی ایم حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک کی معاشی اور انتظامی صورتحال بار بار انتخابات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس کے مطابق 2023 ملک گیر انتخابات کا سال ہے جس کی رو سے بہتر یہی ہوگا کہ یہ عمل اکتوبر میں انجام پذیر ہو۔ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے جس پر پی ڈی ایم حکومت نے نظر ثانی کی اپیل دائر کرتے ہوئے اپنا متذکرہ مؤقف پیش کیا ہے۔ اس ساری صورتحال کے تناظر میں افہام و تفہیم کی فضا میں خوشدلی کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سننا اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کسی ذاتی یا سیاسی نفع نقصان کی سوچ کے بغیر مسئلے کا حل تلاش کرنا حالات کا ناگزیر تقاضا ہے جسے ملحوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے فوری مذاکرات کرکے عام انتخابات کیلئے ایک تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کو ترجیح دی اور حکم دیا ہے کہ فریقین اپنے فیصلے سے عدالت کو فوری آگاہ کریں۔ عدالتی احکامات کی روشنی میں جمعرات کے روز حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ہوا جو بات چیت جاری رکھنے اور اپنا مؤقف پیش کرنے تک محدود رہا۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے تین شرائط رکھی گئی ہیں جن میں سرفہرست یہ ہے کہ مئی میں قومی اور باقی دونوں اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور ایک ساتھ انتخابات کیلئے آئین میں ترمیم کی جائے جس کے لئے تحریک انصاف کو استعفے واپس کرنا ہوں گے۔ مذاکرات میں پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ سامنے آیا کہ رواں سال جولائی میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جائیں۔ مذاکرات کا دوسرا دور جمعہ کے روز سہ پہر تین بجے رکھنا طے پایا تھا اور تادم تحریر یہ عمل شروع نہیں ہوا تاہم پہلے روز ہونے والی بات چیت کی روشنی میں حکومتی اور پی ٹی آئی کے مؤقف سے قطع نظر یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا بجا ہے کہ جمی برف پگھلنے لگی ہے، کچھ ماننے اور کچھ منوانے پر اتفاق کرنا ہوگا۔ ملک میں جاری کشیدگی کم کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں متحرک اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے میں متفق دکھائی دیتی ہیں تاہم ایسے مواقع پرمذاکرات کے پیچھے محض اپنے مفادات کو ترجیح دینا عموماًسیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں جب امن و امان کا مسئلہ درپیش اور ملک بدترین معاشی صورتحال سے دوچار ہے، عام آدمی کو انتہائی مہنگائی کا سامنا ہے اور ملک ہر طرح کی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سمیت عالمی ادارے اور دوست ممالک دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ہماری مالی امداد تو کرسکتے ہیں لیکن مسائل کا حل بہرحال من حیث القوم ہمیں خود ڈھونڈنا ہوگا۔درپیش حالات ملک کی سیاسی قیادت اور اداروں کی فراست، تدبر اور حب الوطنی کا امتحان ہیں۔جمہوری ملکوں میں عام انتخابات کے پیچھے کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی اور آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کا پختہ عزم کارفرما ہوتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت ابھی اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے جس کے لئے سب سے بنیادی کام ریاستی اداروں کی آزادی و احترام اور میرٹ کی بالا دستی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حالیہ مذاکرات کو سنجیدہ اور بامقصد بنایا جائے تاکہ یہ کام خوشگوار ماحول میں انجام پذیر ہو اور فریقین خوشدلی سے کام لیتے ہوئے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرسکیں ۔