پارلیمنٹ ڈائری،پارلیمنٹ اورعدالت میں ہنگامہ خیزیوں کے بعدسکون

29 اپریل ، 2023

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) شاہراہ آئین پر واقع پارلیمنٹ ہائوس اور عدالت عظمیٰ میں کئی پرآشوب دنوں اور ہنگامہ خیزیوں کے بعد وہ سکون غالب آرہا ہے کہ ان کے مکینوں کو اس کایا کلپ کے بارے کوئی سدھ بدھ ہی نہیں لگ رہی وہ قیاس کے تیر چلا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے اضطراب کے ساتھ دریافت کر رہے ہیں کہ اس اچانک ’’جنگ بندی‘‘کے اسباب کیا ہیں اور کہیں یہ بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی تو نہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس کے مرکزی دروازے سے متصل سینیٹ کے کمیٹی روم میں دوسرے دن بھی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ مذاکرات کا جمعہ کو دوسرا دور تھا جس میں فریقین نے کسی پیش رفت کی اطلاع نہیں دی تاہم تحریک انصاف کے اس مطالبے کی ہوا لگ گئی کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس آنے کے لئے بے چین ہے اس کے آئین میں ترمیم کی دم پکڑ کر اس نے پارلیمنٹ ہائوس میں داخل ہونے کا ارادہ ظاہرکیا ہے حالانکہ وہ اس ایوان کو گالیاں دیتے نہیں تھک رہی تھی حکومت نے کسی آئینی ترمیم کا ذکر ہی نہیں کیا، تحریک انصاف کے نابغوں کا کہنا ہے کہ حکومت اگر ملک میں ایک ہی روز عام انتخابات کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے آئین میں ترمیم درکار ہوگی یہ سراسر تجاہل عارفانہ ہے جس عدالتی فیصلے نے کسی منطق کے بغیر صوبائی اسمبلی پنجاب کے انتخابات کی تاریخ 14مئی کے لئے مقرر کردی ہے اسی طور پر ایک حکم جاری کرکے عام انتخابات اورصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن منعقد کرنے کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف نے دست بستہ درخواست کی ہے کہ قومی، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کو آئندہ ماہ تحلیل کردیا جائے اور جولائی میں عام انتخابات ایک ہی دن کرادیئے جائیں۔ تحریک کے ارکان قومی اسمبلی جن کے استعفے قصہ پارینہ بن چکے ہیں انہیں استعفیٰ واپس دیکر ایوان میں لایا جائے۔ ان مضحکہ خیز مطالبات میں سے کسی ایک کا تسلیم کیا جانا حدامکان میں شامل نہیں ہے۔ اسمبلیاں توڑنا اور اس کے ذریعے اپنے مطالبات کو آگے بڑھانا عمران کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ حکومتی اتحاد اپنی آئینی مدت سے ایک دن پہلے بھی حکومتی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوگا۔