ملک میں جاری سیاسی انتشار نے تمام کاروبار مملکت کو جس بری طرح متاثر کررکھا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں تاہم عدالت عظمیٰ نے حکومت اور اپوزیشن کو چاروں صوبوں اور مرکز میں عام انتخابات کیلئے ایک ہی تاریخ پر اتفاق کی خاطر مذاکرات کا مشورہ دے کر اس انتشار کے خاتمے کی مستحسن تدبیر کی ہے اور اب یہ ملک کی سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس موقع کا درست استعمال کرتی ہے یا بے لچک رویہ اختیار کرکے اسے ضائع کردیتی ہے ۔ سابق حکمراں جماعت ایک سال پہلے قطعی آئینی طریق کار کے مطابق حکومتی تبدیلی کو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے قبول کرکے اگر پارلیمنٹ میں بحیثیت حرب اختلاف اپنا آئینی کردار ادا کرتی اور آئندہ انتخابات میں بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں آنے پر اپنی توجہات مرتکز رکھتی تو آج وہ خود بھی زیادہ مؤثر پوزیشن میں ہوتی اور بحیثیت مجموعی ملک کے حالات بھی بہتر ہوتے لیکن اس کے بجائے سابق وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے استعفوں کی راہ چنی۔ اپنی حکومت کے خاتمے کو بے بنیاد طور پر غیرملکی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فوری نئے انتخابات کے مطالبے کے ساتھ جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا‘ وفاقی دارالحکومت پر لاکھوں کے لشکر لے جاکر دھاوا بولنے کے دعوے کیے ، اس کے بعد پنجاب اور خیبر پختون خوا میں جہاں ان کی اپنی پارٹی کی حکومت تھی، کسی معقول وجہ کے بغیر صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کا فیصلہ کیا ۔ آئین کی رو سے اسمبلی تحلیل کیے جانے کی صورت میں نو ّے دن کے اندر نئے انتخابات کرائے جانے چاہئیں لیکن اس سے پہلے اصولاً یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ اسمبلی توڑنے کی کوئی حقیقی وجہ موجود تھی یا نہیں ۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی نشان دہی سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی جانب بھی کی جاچکی ہے۔تاہم چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پنجاب میں انتخابات کیلئے چوبیس مئی کی تاریخ مقرر کر دی اور حکومت کو دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے مطلوبہ رقم کی فراہمی کا حکم دے دیا۔ اس پر ایک تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف ہمہ گیر کارروائی جاری ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل کے دوران امن وامان برقرار رکھنے کیلئے مطلوبہ نفری کی فراہمی کو محال قرار دیا اور دوسرے حکومت نے مالیاتی وسائل کی فراہمی کو مشکل قرار دینے کے علاوہ یہ موقف اپنایا کہ دو صوبوں میں عام انتخابات سے چند ماہ پہلے انتخاب ہونے کی وجہ سے یہ منتخب حکومتیں قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز ہوں گی لہٰذا ملک بھر میں مستقل روایت کے مطابق قومی اور تمام صوبائی انتخابات ایک ہی روز غیرجانبدار نگراں حکومتوں کے زیر اہتمام کرائے جانے چاہئیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے بھی اس موقف کی معقولیت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کو باہمی مذاکرات سے ملک بھر میں تمام انتخابات کیلئے ایک ہی تاریخ پر اتفاق کی تجویز دی ۔ ان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور گزشتہ روز ان کا دوسرا دور تھا ۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے بجٹ کے بعد اسمبلیاں تحلیل کرنے کی پیشکش کی ہے اور ستمبر میں انتخابات کروانے کی تجویز دی ہے جس پر پی ٹی آئی وفد نے عمران خان سے بات کرنے کی ہامی بھرلی ہے لیکن تحریک انصاف کے قائد نے گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں حاضری کے موقع پرستمبر اکتوبر میں انتخابات کرانے کی پیشکش قبول نہ کرنے اور 14 مئی سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی شرط عائد کر کے کامیابی کا بظاہر کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیا ہے جبکہ دونوں فریق کچھ ماننے اور کچھ منوانے کا رویہ اختیار نہ کریں تو مذکرات کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ لہٰذا حکومت کی طرح تحریک انصاف کی قیادت کو بھی اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی کوہوگی تاکہ ملک انتشار سے نجات پائے جو محفوظ قومی مستقبل کیلئے ناگزیر ہے۔
دل سے جو قوم کی خدمت میں لگے ہیں دن راتایسے خدّام کے ناموں کا پتہ چلتا ہے کام ہوتے نظر آئیں کہ نہیں، البتہ...
صدر ڈولڈ ٹرمپ کے موجودہ عہدِ صدارت کا جائزہ لینے کیلئے بیسویں صدی کے دو مشہور سیاسی مفکرین کے نظریات کو...
15جنوری 1970ء کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح کو مجھے اور مسعود کو امریکہ کےلئے روانہ ہونا تھا۔ میں نے اور مسعود نے سفر کے...
پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کی طویل اور تکلیف دہ تاریخ رکھتا ہے ۔ سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ میں کود پڑنے سے...
ریاست ہائے عالم اور ان میں بسنے والی اقوام کی ترقی و خوشحالی، اتحاد و استحکام اور امن و تحفظ کا انحصار ایٹ...
محترم شامی صاحب اور جناب سہیل وڑائچ صاحب کے ہمراہ گزشتہ روزمقامی ہوٹل میں سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود...
ہندوستان تقسیم ہوا تو اسکے چار بنیادی آئینی اصول تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے مطابق مذعومہ نوآزاد...
تضادستان جب سے بنا ہے اس میں یا تو افسر شاہی سیاست کرتی رہی ہے یا پھر خود افسر شاہی سے سیاست ہوتی رہی ہے۔ یہ ملک...