خداراہ سوچئے

خلیل احمد نینی تال والا
30 اپریل ، 2023
ایک بادشاہ اپنے محل میں بیٹھا تھا۔جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے سنا۔’’سیب لے لو! سیب‘‘ اس نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے جا رہا ہے ۔امیر آدمی نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا:خزانے سے 500روپے لے لو اور میرے لئے ایک سیب لا ئو ،وزیر نے خزانے سے 500روپے نکالے اور اپنے معاون سے کہا:یہ 400روپے لو اور ایک سیب لائو۔ معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا :یہ 300روپےلو اور ایک سیب لائو۔محل کے منتظم نے محل کے چوکیدار منتظم کو بلایا اور کہا :یہ 200روپے لو اور ایک سیب لاو۔چوکیدار ی کے منتظم نے گیٹ کے سپاہی کو بلایا اور کہا :یہ 100روپے لو اور ایک سیب لاو۔سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا:دیہاتی انسان ! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو ؟۔ تمہیں نہیں پتا کہ یہ بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلادینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے ۔ اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھے قید کر دوں ۔ سیب فروش محل کے سپاہی کے قدموں میں گر گیا اور کہا:میں نے غلطی کی ہے جناب ! اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے ،یہ لے لو،مجھے قید کرنے سے معاف رکھو ! سپاہی نے سارے سیب لئے ،آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم افسر کو دے دئیے ، اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے افسر کو دے دئیے اور کہا:کہ یہ 100روپے والے سیب ہیں ۔افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کے منتظم کو دیا ،اس نے کہاکہ ان سیبوں کی قیمت 200روپے ہے ۔محل کے منتظم نے آدھے سیب اپنے لئے رکھے اور آدھے اسسٹنٹ وزیر کو دئیے اور کہا:کہ ان سیبوں کی قیمت 300روپے ہے۔ اسسٹنٹ وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر کے پاس گیا اور کہا:کہ ان سیبوں کی قیمت 400روپے ہے۔ وزیر نے آدھے سیب اپنے پاس رکھےلئے اور اس طرح صرف 5سیب لیکر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا :کہ یہ 5سیب ہیں جن کی مالیت 500روپے ہے۔حاکم نے سوچا کہ اس کے دورِ حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں ۔کسان نے5سیب 500روپےکے عوض فروخت کئے، میرے ملک کے لوگ 100روپے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں،اس لئے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی چلی گئی۔ ’’فارسی ادب سے ماخوذ‘‘
یہی حال آج کل ہمارا ہے،نیچے سے لے کر اوپر تک تمام لوگ اسی طرح کرپشن میں ملوث ہیں ۔ ان سب لوگوں کو یہ پتہ نہیں کہ ہماری موت ہمارے اوپر منڈلا رہی ہے اور کسی بھی وقت موت کا فرشتہ ہمارا کام تمام کر دے گا ۔ دوستو، ہم جو حرام کی کمائی سے پیسہ بناتے ہیں ،رشوت سے یا نا جائز طریقہ سے، یقین کریں ایسا پیسہ نہ تو ہمارے کام آئے گا اور نہ ہی ہماری اولادیں ایسے پیسے سے اپنا کچھ بنا سکیں گئی ۔ایسا پیسہ ہمارے بعد ہمارے رشتے دار کھا پی جاتے ہیں لیکن حساب ہمیں دینا پڑے گا۔خداراذرا سوچئے!۔زندگی موت کی امانت ہے،دوسری جانب پنجاب اور کے پی کے انتخابات میں جتنا ممکن ہو تاخیر کرنےکی حکومت اور الیکشن کمیشن نے ٹھان رکھی ہے۔ اسی لئے الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ اور اس میں تبدیلی کے اختیارات سے متعلق قانون سازی کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے اس خط میںآئین کے سیکشن 57(1) اور 58میں ترمیم کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور انتخابی پروگرام میں تبدیلی کیلئے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کرنے کی تجویز دی گئی ۔خط میں کہا گیا کہ انتخابات کیلئے مناسب ماحول کی موجودگی یا عدم موجودگی کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے اور یہ اختیار کسی بھی دوسری اتھارٹی کے پاس نہیں، تاہم یکم مارچ2023اور 5اپریل 2023کے عدالتی فیصلوں نے الیکشن کمیشن کو اس آئینی اختیار سے محروم کردیا ۔ خط میں الیکشن کمیشن نے لکھا کہ صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ دیئے جانے کے اختیار کو کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں۔ یہ آئین کی روح کے خلاف ہے اور اس نے الیکشن کمیشن کے آرٹیکل 218(3)اور 219کے تحت دیئے گئے اختیارات کو اس سے چھین لیا ہے۔ ان وجوہات او رحقائق کی بنا پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ شق57(1)اور 58میں ترامیم پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کی جائیں۔ اس طرح الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ سے اپنے اختیارات میں ترامیم کیلئے کہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال جو ستمبر میں سبکدوش ہونے والے ہیں اور انکی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان ہونگے،چیف جسٹس اور دیگر ججز کے درمیان نا اتفافی اور عدم اعتمادی عدلیہ کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کیلئے بھی نقصان دہ ہوگی۔ چیف جسٹس نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے ججز اور ان کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز کے تاثرات کیا ہونگے۔ پاکستان ان دنوںمختلف بحرانوں کاشکار ہے۔ معاشی اعتبار سے گزشتہ سال عمران خان کی حکومت سے تقابل کیا جائے تومہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے۔