کوئٹہ (نمائندہ جنگ، اے پی پی ) وکلاء کے ملک گیر کنونشن میں اعلان کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس اختیارات بل پر سپریم کورٹ نے منگل تک حکم امتناع ختم نہ کیا تو ملک گیر احتجاج کرینگے،کوئٹہ میں آل پاکستان بار کونسلز و ایسوسی ایشن کا کنونشن ہوا، جس میں ملک بھر سے وکلاء رہنمائوں نے شرکت کی اورسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کرنے پر پارلیمنٹ سے اظہار تشکر کیا گیا، وکلاء رہنمائوں نے اپنے خطاب میں آئین کی سربلندی کیلئے ہر قربانی دینے کے عزم کا اعادہ کیا ،امان اللہ کنرانی نے کہا وکلاء کو تقسیم کرنیوالے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرح چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی اپنی ایکسٹینشن کیلئے کوششیں کررہے ہیں، احمد فاروق خٹک نے کہا ججز، جرنیل اور بیوروکریسی کی دوبارہ تقرری پر پابندی عائد کی جائے،حسن بھون نے کہا عدلیہ ٹول کے طور پر غیر جمہوری طاقتوں کیلئے کام کررہی ہے،سلیم لاشارنی نے کہا من پسند افراد کو بینچ میں شامل کرنے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدور یاسین آزاد ، امان اللہ کنرانی، احسن بون، سینیٹرکامران مرتضیٰ، سیدقلب حسن،بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امان اللہ کاکڑ، چیئرمین بین الصوبائی عادل عزیز، بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین بین الصوبائی رابطہ کمیٹی راحب خان بلیدی، بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی قاسم علی گاجیزئی،پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین بشارت اللہ، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی طاہر چوہدری، خیبر پختونخوا بار کونسل کے وائس چیئرمین زر باچا،سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین اظہر عباسی، اسلام آباد بار کونسل کے چیئرمین بین الصوبائی رابطہ کمیٹی عادل عزیز، بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین بین الصوبائی رابطہ کمیٹی راحب خان بلیدی،بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی قاسم علی گاجیزئی، راحب خان بلیدی،خیبرپشتونخواہ بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی سید مبشر، طاہر شبیر چوہدری، سید امجد شاہ، سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر، حیدر امام رضوی، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبدالمجید کاکڑ، شاہ رسول ودیگر نے کوئٹہ میں بلوچستان بار کونسل کے زیر اہتمام وکلاء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے جانے والے ججز نے ہمیشہ قانون کو آگے رکھا ۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ ہے۔ پاکستان میں جب پہلا مارشل لا لگا تو آئین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے عدلیہ نے مارشل لاء کو ڈیفنڈ کیا آج ایک بار پھر یہ سلسلہ جاری ہے،جو بھی آئین کے ساتھ کھیلا اس کا نام و نشان نہیں رہا جو آئین کے ساتھ کھڑا ہوا وہ آج بھی زندہ ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکلاء کو تقسیم کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں یہاں بات اصولوں کی ہے ہم اصولوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سازش کے تحت وکلاء کو تقسیم کیا جارہا ہے ۔یوم جشن منانا چاہیے کہ آج ہمارے ادارے مضبوط ہو رہے ہیں آئین شکنی کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیے انہوں نے کہاکہ جس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ کو 3 سال ایکسٹینشن دی گئی اسی طرح چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی اپنی ایکسٹینشن کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد نے کہاکہ پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے لیکن وہ سب سے کمزور اور لولی لنگڑی بن گئی ہے۔ ہماری تباہی میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا بڑا حصہ اور کسی حد تک سیاستدان بھی ہیں۔ اگر مجیب الرحمٰن کو اس وقت اقتدار دیا جاتا تو پاکستان دو لخت نہیں ہوتا بلکہ ترقی کررہا ہوتا افراد آتے جاتے ہیں ضرورت ہے کہ یہ افراد اداروں کی بہتری کیلئے کام کریں ۔ انہوں نے کہا کہ شیڈول جاری کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن یہاں ایک ادارہ دوسرے ادارے کا کام کررہا ہے جو ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کے مترادف ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی گئیں تو پھر زور صرف پنجاب پر کیوں ہے؟ سپریم کورٹ کے جج صاحبان بری طرح تقسیم ہیں عدلیہ، پارلیمان اور اسٹیبلشمنٹ اپنے معاملات بہتر بنائیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے کہاکہ کتنی بدقسمتی ہے کہ 73 کے آئین کو 50 سال مکمل ہو گئے اور پاکستان کو بنے 75 سال ہوئے ہیں جس دستور کے 50 سال ہوئے کیا ہم نے کبھی اس دستور پر عمل کیا ہے ان دستاویزات سے تو ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور عوام کی حقیقی حکمرانی تو دور بلوچستان میں تو انسانی حقوق ہی میسر نہیں مائیں اور بہنیں آج بھی اپنے لاپتہ بیٹوں اور بھائیوں کا انتظار کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں بلکہ لولی لنگڑی ہے جب یہ لولی لنگڑی پارلیمان کوئی قانون دے دیتی ہے تو پھر سپریم کورٹ اس پر اسٹے دیتی ہے کیونکہ اس قانون سے ایک شخص کو ذک پہنچتی ہے۔ ناراضگی کا اظہار ایسے کرتے ہیں کہ قانون سے پہلے اسٹے جاری کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ کی ججز میں تقسیم کا مثال دنیا کے کسی حصے میں نہیں ملتی لیکن پاکستان میں ملتی ہے۔انہوں نے کہاکہ آئین کا حلف لینے والوں نے ہمیشہ اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو پہنچایا گیا۔ سید قلب حسن نے کہاکہ یہ پہلا کنونشن ہے جو اپنی جوڈیشری کیلئے ہے سوموٹو لیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون کی عمل داری ہے سپریم کورٹ میں 52 ہزار کیسز پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کنونشن کسی کے خلاف نہیں جوڈیشری کو جوڈیشری سے آزاد کرنا ہے۔ احسن بھون نے کہاکہ ہم ایک کاز کے ساتھ کھڑے ہیں ہم گزشتہ 23 سال سے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے آرہے ہیں، نظام کی بہتری کیلئے کوئی قانون بنتا ہے تو ویلکم کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کام کرنا ہوگا ہماری جدوجہد کسی ایک حکومت کے آنے یا جانے کیلئے نہیں بلکہ آئین پر عمل کیلئے ہونی چاہیے۔ قومی اسمبلی کی قانون سازی سے چیف جسٹس کے وقار میں اضافہ ہوگا عدالت کی غیر جانبداری پر اٹھنے والے سوالات کے خاتمے کیلئے قانون کی عمل داری ضروری ہے۔ آج جمہوری نظام خطرے میں ہے۔ عدلیہ ایک ٹول کے طور پر غیر جمہوری طاقتوں کیلئے کام کررہی ہیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کیلئے وکلا قربانیاں دیتے ہیں۔بلوچستان بار کونسل کے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین راحب بلیدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ بلوچستان کو ہمیشہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ ملک میں آئینی بحران،مارشل لاء ہو یا پارلیمنٹ کی بالادستی ، بلوچستان کے وکلا نے پہل کی ہے۔ اور اس راہ میں بلوچستان کے وکلاء نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں اب بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ آج کوئٹہ میں وکلاء کانفرنس کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہےکہ بلوچستان کے وکلاء ملک بھر کے وکلاء کے ساتھ ہیں۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سیاسی و آئینی بحران چل رہا ہے چیف جسٹس آف پاکستان اور ہم خیال ججز کا جو کردار ہے وہ افسوس ناک ہے۔ خیبر پختونخوا بار کونسل کے سابق ممبر احمد فاروق خٹک نے کہاکہ وکلاء کی جو تحریک بلوچستان سے شروع ہوتی ہے وہ کامیاب ہو جاتی ہے۔ آئینی قانونی امور سپریم کورٹ کے تین تھانے داروں کے پاس رہ گئے ہیں یہ تین نہ تو خود کو جج، قاضی، اور نہ ہی منصف مانتے ہیں بلکہ خود کو تھانے دار مانتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی ایلویشن سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ریٹائرڈ ججز، جرنیل اور بیوروکریسی کی دوبارہ تقرری پر پابندی عائد کردی جائیں اگر پابندی نہ لگی تو خزانے پر بوجھ کے ساتھ جونیئر ملازمین میں تشویش بڑھ جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ججز کی کنسلٹنسی پر پابندی عائد کی جائیں، اور باقاعدہ قانون سازی کی جائیں۔ ثاقب نثار اور اس کے حواریوں نے ہمیشہ نے ساتھی ججز کی بے توقیری کی ہے اور کرتے آرہے ہیں۔ وکلاء برادری کو اس بے توقیری کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیے۔اسلام آباد بار کونسل کے عادل عزیز نے کہاکہ سپریم کورٹ حق و سچ کا ساتھ دیکر انصاف پر مبنی فیصلے کریں وکلاء قیادت جو بھی قدم اٹھائے گی ہم ان کے ساتھ ہیں۔ سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین اظہر عباسی نے کہا کہ ہم کسی کے خلاف نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا وقار بحال ہو۔ بلوچستان بار کونسل کے سلیم لاشاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ آئین کی بالادستی تب قائم ہوگی جب تمام ادارے اپنی حدود میں رہیں اگر آئینی حدود سے متجاوز ہوں تو آئینی بالادستی قائم نہیں رہتی۔ پاکستان بھر کے وکلاء کو آئین کیلئے کھڑا ہونا چاہیے کسی خاص طبقے کیلئے نہیں۔سپریم کورٹ کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے اگر سپریم کورٹ بحیثیت ادارہ کمزور ہوگیا تو پھر اس کو اٹھانا مشکل ہوگا اس لئے ضروری ہےکہ وکلا قیادت مضبوط اور مستحکم کردار ادا کرتے ہوئے قومی مفاد میں آگے بڑھیں۔ خیبر پختونخوا بار کونسل کے وائس چیئرمین زر باچا نے کہاکہ پاکستان کے عوام پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن پارلیمان کے قانون سازی کے عمل کو عدالتی فیصلے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ آئین پاکستان اپنے ہی معتبر ایوان سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا ہے سپریم کورٹ بوقت ضرورت آمر کے ساتھ کھڑی رہتی ہے جس سے عدالتی تاریخ داغدار ہوتی چلی گئی۔ عدالتی تاریخ اور کردار سے جو تصویر پیش کی گئی ہے اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عدالت عظمی اپنے آئینی حدود سے تجاوز نہ کرے نظام عدل کو یرغمال بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، کنونشن کو ضرب للکار کا نام دیتا ہوں۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی کا مسئلہ آج نہیں بلکہ عدلیہ میں بیٹھے لوگوں کی آمرانہ ذہنیت کا ہے جو اپنے اختیار کو تقسیم نہیں کرنا چاہتے، چیف جسٹس پر ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت کی توقیر کا خیال رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگلا کنونشن 13 مئی کو پشاور میں ہوگا۔ بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امان اللہ کاکڑ نے کہاکہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور مفاد عامہ کیلئے سپرمیسی آف لاء و پارلیمان کی بالادستی ضروری ہے۔ آئین و قانون کی خلاف ورزی پر خاموشی کی بجائے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا نے کہا کہ ہمارا کوئی سیاسی جماعت نہیں اگر ہے تو وہ بار کے معاملات سے باہر ہیں۔وکلا کنونشن کسی کی ذات کیلئے نہیں ہے سپریم کورٹ پروسیجر ایکٹ بل وکلا کے امیدوں کی ترجمانی کررہی ہے۔ 23 ممبران میں 6 ممبران کہتے ہیں کہ اجلاس نمائندہ نہیں کیا 17 ممبران کا کوئی مینڈیٹ نہیں یا وہ عوامی مینڈیٹ لیکر نہیں آئے ہیں۔
اسلام آباد پاکستان عالمی دہشتگردی سے متاثرہ 163 ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔یہ انکشاف گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس...
اسلام آباد ایک بڑی پیش رفت کے طور پر، بلوچستان میں اینٹمونی کے نام سے جانی جانے والی سب سے اسٹریٹیجک اور...
کراچی جیوکے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلویز ، حنیف عباسی...
کراچی جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ “ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ، سینیٹر طلال...
اسلام آ باد چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا نے ہدایت دی ہے کہ عید الفطر کے بعد سیکٹر E-12 میں ترقیاتی کاموں...
اسلام آباد رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ فتنہ پھیلانے والے کئی لوگ ہیں جو عمران خان سے...
لاہورپاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے امن و امان پر خصوصی...
اسلام آباد اسلام آباد ہائیکورٹ نے 190 ملین پاونڈز ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی...