مصنوعی ذہانت یا معاشرتی موت

محمد خان ابڑو
09 مئی ، 2023
جدید ترقی کےاس دور میں جہاں جدت نے ہمیں فائدہ پہنچایا ہے، وہاں بے تحاشہ نقصان کا بھی سامنا ہے۔ فیکٹریوں کے قائم ہونے کے بعد جس طرح یہ دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہوئی اس پر لکھنے کے لئے کئی صفحات درکار ہیں، اور اسی طرح اس صدی میں جہاں انسان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جس انداز سے ترقی کی ہے اس کے ثمرات بھی مل رہے ہیں کیوں کہ اس ترقی نے انسانوں کی زندگیاں بدل دی ہیں،مصنوعی ذہانت یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی آمد کے ساتھ، ماہرین تعلیم کو بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے، اب سرقہ اور ڈیجیٹل دھوکہ دہی کا سراغ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد کو کاپی اور پیسٹ کی عادت تھی، مگر اب مصنوعی ذہانت یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے ٹولز آنے کے بعد پہلے سے ہی تخلیقی طور پر دیوالیہ نسل مزید پستی کی طرف جارہی ہے۔ آج کا طالب علم ہو یا نوجوان وہ ریسرچ سے دور بھاگ رہا ہے جب پکا پکایا کھانا مصنوعی ذہانت کے ذریعے مل رہا ہے تو وہ کیوں ریسرچ کرے ؟ انٹرنیٹ پر سرچ انجنوں کی وجہ سے اس کے مشکل سوالات کو جلد حل کرنے کے عادی، chatgpt جیسی آرٹی فیشل انٹیلی جنس ایپس نےاسے تخلیقی کاموں میں اپنے دماغ کو استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کی گئی تحقیق کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل میں اعتماد کا فقدان دیکھا جارہا ہے۔ طالب علم ہی نہیں اساتذہ بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر بھروسہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اصل تعلیمی قدر اور قابلیت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ مشکل سوالات حل کرنا پڑیں تو اکثر طالب علم ناکام ہورہے ہیں کیوں کہ ان کا تمام کام یہ آرٹی فشل انٹیلی جنس کر رہی ہے جب انھیں کوئی مشکل کام خود کرنا پڑے تو وہ ناکام ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو ان مسائل پر گفت و شنید کرنی ہوگی تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈا جا سکے۔ اساتذہ کو حکمت عملی وضع کرنی ہو گی تاکہ طلبا و طالبات کو اپنی سوچ اور استدلال کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا موقع ملےاور وہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو کم سے کم استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ریسرچ اور اپنے علم اور دماغ کا استعمال کریں۔ جب طالب علموں کو سب آن لائن مل جائےگا تو وہ مزید علم کی جستجو کیوں کریں گے ؟ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئےہمارے اساتذہ کو چاہئے کہ طالب علموں کو یہ کام سونپا جائے اس کے بعد ان کا ٹیسٹ کیا جائے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ طالب علم میں کتنی صلاحیت ہے یا اس نے سارا کام اور ہوم ورک آن لائن مکمل کر لیا ہے۔ پہلے سے کوشش کی جائے کہ اسائنمنٹ یا ہوم ورک کو اساتذہ کی موجودگی میں اور تمام ڈیجیٹل وسائل کی عدم موجودگی میں مکمل کروایا جائے تاکہ طالب علموں میں اپنی صلاحیت اور دماغ استعمال کرنے کی عادت پیدا ہو۔
اس سے طالب علموں کی حقیقی علمی قدر اور گہرائی کا جائزہ لینے میں بھی مدد ملے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو اپنی طرف سے، کسی بھی تخلیقی کام کو اپنے طور پر پورا کرتے وقت اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور بغیر کسی ڈیجیٹل سہارےکے اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور یہ عادت تب ہی آئے گی جب نوجوان کتابوں سے دل لگائیں گے۔ جب طالب علم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے بجائے اپنے علم اور دماغ کا سہارا لیتے ہوئے اپنا کام مکمل کرتا ہے تو اسے اپنی بے ساختہ فنی صلاحیتوں پر فخر محسوس ہوتا ہے کیوں کہ بیج لگانے والا ہی ایک بیج سے ملنے والے پھلوں کی چاشنی کا مزہ محسوس کرسکتا ہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ کا کام حد درجے بہترین ہوکر سامنے آتا ہے جسے بہتر کرنے کے لئے آپ کو مزید کام نہیں کرنا پڑتا اور یہ آپ کو آپ کی مرضی کے نتائج دیتی ہے جس سے آپ ایک ایسے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں جو آپ کے دماغ کی صلاحیتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سن کر دیتا ہے۔ آئیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اس نشے سےدور کریں، انھیں پابند کریں کہ وہ اپنا زیادہ وقت لائبریری میں گزاریں تاکہ علم کے سمندر میں اتر کر انھیں کسی مصنوعی ذہانت کا سہارا نہ لینا پڑے، آئیں اپنی آنے والی نسل کو اس نشے سے بچائیں کیوں کہ جس قوم میں ریسرچ اور تخلیق کی موت ہوجائے وہ کبھی ناکامی کے سمندر سے باہر نہیں آسکتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)