انتخابات تاخیر کاشکار ہوتومنفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں،کب تک جمہوریت قربان کرتے رہیں گے،چیف جسٹس

26 مئی ، 2023

اسلام ا ٓباد (جنگ نیوز)سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ’کب تک انتخابات آگے کر کے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ جمعرات کو صوبہ پنجاب میں الیکشن سے متعلق نظرثانی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مبنی تین رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےریمارکس دیے کہ ’آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے چار سال رہے۔‘تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی۔ جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی، کئی سال نتائج بھگتنا پڑے۔‘چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ ہوم ورک کر کے آئیں، پتہ چلے کہ الیکشن کمیشن کی مشکل کیا ہے۔‘دلائل کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں۔ ’ہمیں بتائیں کہ آپ کا اصل نقطہ کیا ہے۔‘الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹکے رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کر سکتے۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟‘الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا توہین عدالت کے کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا تھا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے۔ کم ازکم ٹارگٹ کر کے فائر کریں پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔‘جسٹس منیب نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ ’آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کر دیا ہے۔‘الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات کے لیے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ’اگر صوبائی اسمبلی چھ ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے چار سال نگراں حکومت ہی رہے گی؟، ساڑھے چار سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟‘وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے چار سال کے لیے نئی منتخب حکومت آ سکتی ہے۔’آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے چار سال رہے۔‘الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آئین کی منشا منتخب حکومتیں اور جہموریت ہی ہے، منتحب حکومت ہی ملک چلا سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو تو منفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی؟’آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں۔‘کیس کی سماعت پیر29 مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔