زرعی ٹیکس کی شرح میں چار فیصد کمی کی جائے، بلوچستان اسمبلی

26 مئی ، 2023

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان اسمبلی نے صوبے میں زرعی ٹیکس کی شرح پانچ سے کم کرکے ایک فیصد کرنے ، پی پی ایچ آئی کے ملازمین کو مستقل اور گرلز کالج کوئٹہ کینٹ کو یونیورسٹی کا درجہ دینے سے متعلق تین قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں ، ڈپٹی اسپیکر نے وفاقی لیویز فورس کے سروس اسٹرکچر کے حوالے سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ بلوچستان کو اسمبلی طلب کرلیا ۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو 2 گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں پشتونخوامیپ کے نصر اللہ زیرے نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پی پی ایچ آئی کے ملازمین ، پیرامیڈیکل اسٹاف 16 سال سے کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں اور اپنی خدمات صوبے کے مختلف بی ایچ یوز میں انجام دے رہے ہیں ان کی مستقلی کی بابت حکومت کی جانب سے متعدد بار یقین دہانی کے باوجود کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں جس کی وجہ سے پی پی ایچ آئی کے ملازمین میں مایوسی اور احساس محرومی پایا جاتا ہے ، لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ پی پی ایچ آئی کے ملازمین کو فی الفور مستقل کرنے کے بابت عملی اقدام اٹھائے تاکہ ان میں پائی جانیوالی احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔ اپنی قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصر اللہ زیرے نے کہا کہ 16 سال سے یہ ملازمین اپنے خدمت انجام دے رہے ہیں ، وزیراعلیٰ بلوچستان نے نصیب اللہ مری کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کرکے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک ماہ میں سمری تیار کی جائے گی مگر ملازمین کو مستقل کرنے کے بجائے لورالائی میں ملازمین کو برطرف کیا گیا ، انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی بلوچستان اسمبلی میں ان ملازمین کو مستقل کرنے سے متعلق قرارداد منظور ہوچکی ہے مگر حکومت ایوان کے تقدس اہمیت نہیں دیتی ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فی الفور ان ملازمین کو مستقل کیا اور چیف سیکرٹری کو اس قرارداد پر عمل درآمد کرانے کا پابند کیا جائے ۔ بعد ازاں ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ۔ اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے رکن اسمبلی قادر علی نائل کی عدم موجودگی کے باعث ان کی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں زرعی آمدن پر پانچ فیصد کے حساب سے ٹیکس لاگو ہے جبکہ دوسری جانب زراعت کے حوالے سے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں ، خصوصاً کاشتکاروں کو فرٹیلائزر ، ڈیزل ، ٹریکٹر و دیگر زرعی مشینری وغیرہ کے پرزہ جات کی مد میں بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں ، مزید براں جن علاقوں میں ٹیوب ویل کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے یا مشینوں کے ذریعے لفٹ کیا جاتا ہے وہاں بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں حد درجے اضافہ ہوا ہے ، واضح رہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور اکثر علاقوں میں زمیندار نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں مالی اخراجات اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کاشتکاروں اور زمینداروں کی آمدن اور بچت نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے انہیں ٹیکسز ادا کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں ، لہذا زمینی حقائق اور موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ حکومت زرعی ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کو یقینی بنائے تاکہ زمینداروں کو سہولیات میسر ہوں اور زراعت کا شعبہ بحالی کی جانب گامزن ہوسکے ۔ قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا کہ بلوچستان کی اسی فیصد آبادی لائیو اسٹاک اور زراعت سے وابستہ ہے اور یہی ان کے روزگار کا ذریعہ ہے ، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بالعموم پورے بلوچستان بالخصوص نصیرآباد میں تباہ کن صورتحال ہے ، لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور بھاری بھرکم ٹیکس دینے سے قاصر ہیں ، ایسے حالات میں ٹیکسز کی بھر مار سے صوبے کی 90 فیصد آبادی بیروزگار ہوجائے گی حکومت زراعت کے شعبے کی سرپرستی کرتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر زرعی آمدن پر عائد ٹیکس ختم کرکے زمینداروں کو مزید سبسڈی اور ریلیف فراہم کرئے ۔ صوبائی وزیر آبپاشی محمد خان لہڑی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ایک زرعی صوبہ ہے وہاں بھی زمینداروں سے زرعی آمدن کی مد میں صرف ایک فیصد ٹیکس لیا جارہا ہے بلوچستان میں سیلاب سے لوگوں کی زمینیں کاشت کی لائق نہیں رہیں بندات ٹوٹ گئے ہیں اس صورتحال میں زرعی آمدن پر عائد ٹیکس ختم کیا جائے انہوں نے ایوان سے استدعا کی کہ مذکورہ قرارداد کو پورئے ایوان کی مشترکہ قرارداد کی طور پر منظور کیا جائے ۔ پشتونخوامیپ کے نصر اللہ زیرے نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کے باعث بھی زمینداروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اگر حکومت پانچ فیصد ٹیکس ختم نہیں کرسکتی تو کم از کم ایک فیصد ٹیکس مقرر کرے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی سطح نیچے جانے سے زیر زمین بارہ سوفٹ کی گہرائی سے زمیندار پانی نکال رہے ہیں ۔ اگر اس صورتحال میں زمینداروں کو ریلیف فراہم نہ کیا گیا تو صوبے میں بیروزگاری اور اجناس کی قلت میں اضافہ ہوگا ۔ بی این پی کے رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ بلوچستان غریب اور پسماندہ صوبہ ہے زرعی ٹیکس سے صوبے کا واحد زرعی شعبہ بھی ختم ہوکر رہ جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں ٹیکس فری ہے وہاں کے زمینداروں کو کھاد بیج ٹریکٹر دیئے جاتے ہیں کم سے کم یہاں زمینداروں کو اگر یہ سہولیات نہیں دی جاسکتی ہیں تو ٹیکس فری کیا جائے ۔ بعد ازان ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ۔ اجلاس میں پشتونخوامیپ کے نصر اللہ زیرے نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کی آبادی جو لاکھوں نفوس پر مشتمل ہے مگر اعلیٰ تعلیمی ادارئے باالخصوص طالبات کیلئے نہ ہونے کے برابر ہیں ، واضح رہے کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ گزشتہ نصف صدی سے زائد تعلیمی میدان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے اور اس میں تقریبا 10000 طالبات علم کے زیور سے آراستہ ہورہی ہیں اور اس وقت بھی ایم ایس اور بی ایس سمسٹر کی کلاسز بھی ہورہی ہیں لہذا یہ ایوان حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ شہر کے وسط میں موجود پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ کی مذکورہ بالا تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر خواتین یونیورسٹی کا درجہ دینے کا احکامات صادر فرمائے ۔ قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصر اللہ زیرے نے کہا کہ خواتین تعلیم یافتہ ہون گی تو معاشرہ ترقی کرئے گا اور اگر خواتین ناخواندہ ہوں گی تو معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ بچیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں ۔ یہ ایک تاریخی کالج ہے صوبائی حکومت اس کو یونیورسٹی کا درجہ دے۔ بعد ازاں قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ۔اجلاس میں پشتونخواءملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ کی توجہ وفاقی لیویز فورس کے سروس اسٹرکچر کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ 29 ستمبر 2022 کی اسمبلی نشست میں باقاعدہ طور پر قرارداد نمبر 148 منظورکی گئی تھی لیکن محکمہ داخلہ نے تاحال اس بابت کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے وفاقی لیویز فورس کے اہلکاروں میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے لہذا محکمہ داخلہ کی جانب سے اس بابت اقدامات نہ اٹھانے کی کیا وجوہات ہیں تفصیل فراہم کی جائے ۔صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی لیویز کے اہلکار نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ان کے بچوں کو مکمل سروس ملنی چاہیے ۔ رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ وفاقی لیویز فورس کے اہلکاروں کے ریٹائرڈ یا فوت ہونے کے بعد ان کے بچوں کو نوکری ملتی تھی لیکن اس پر عملدآمد فی الحال رکا ہوا ہے ۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ وزیر داخلہ ایوان میں موجود نہیں ، اس حوالے سے محکمہ داخلہ سے جواب طلب کیا جائے گا ڈپٹی اسپیکر نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ بلوچستان کو اسمبلی طلب کرتے ہوئے توجہ دلاؤ نوٹس نمٹانے کی رولنگ دی ۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی کی عدم موجودگی پر ان کے سوالات نمٹا دیئے گئے ،وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ جس اجلاس میں جس وزیر کے سوالات ہوں اس دن متعلقہ وزیر غیر حاضر ہوتے ہیں اس فورم پر وزراء جوابدہ ہیں یہ اچھی مثال نہیں ۔ رکن اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ وزراء اگر خود موجود نہ ہوں تو وہ کسی دوسرے وزیر سے ان کی جگہ جواب دینے کا کہہ سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کیا جا تا ۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے میر عارف جان محمد حسنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ بھی حکوت میں ہیں اور یہ عمل جانتے ہیں وزیر پی ایچ ای کی جانب سے آپ جواب دے دیں جس پر میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ ایوان میں مجھ سمیت صرف 4 ارکان اپوزیشن میں ہیں باقی سب حکومت کا حصہ ہیں شیڈو وزیراعلیٰ بھی ایوان میں موجود ہیں وہ جواب دے سکتے ہیں ۔ بعد ازاں وقفہ سوالات متعلقہ وزراء کی عدم موجودگی پر موخر کردیا گیا ۔بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔