سانحہ 9 مئی کے بعد دیکھنا ہوگا انتخابات 8 اکتوبر کو بھی ممکن ہیں یا نہیں، وکیل الیکشن کمیشن

26 مئی ، 2023

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمی میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق فیصلے کیخلا ف دائرالیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دئیے ہیں کہ کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے،الیکشن میں تاخیر ہو تو منفی قوتیں حرکت میں آجاتی ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد دیکھنا ہوگا انتخابات 8 اکتوبر کو بھی ممکن ہیں یا نہیں، عدالت نے نظرثانی کی درخواست کی سماعت ملتوی کردی،چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاآپ نے خود کہا ہے کہ آئین کی روح جمہوریت ہے تاریخ میں ہم حقوق کی قربانیاں دیتے رہے ہیں 3 بار دے چکے ہیں اور پھر اسکے نتائج ہوتے ہیں ضروری ہے کہ عوام کو اپنا فیصلہ دینے کا موقع ملے ہم آئین کے محافظ ہیں ہمیں ہر صورت اسکا دفاع کرنا ہے الیکشن میں تاخیر ہو تو منفی قوتیں حرکت میں آجاتی ہیں الیکشن کمیشن شفاف اور مضبوط ہو تو مداخلت نہیں ہو سکتی ، الیکشن کمیشن نے خود حل نہیں نکالااب عدالت کو ہی اصول وضح کرنا ہو گا یہ مسئلہ انتظامی طور پر حل ہو سکتا ہےالیکشن کمیشن خود ہی غیر فعال ہے اسکی استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہے آئین کی منشاء ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونی چاہئے بظاہر 8 اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمیشن خاموشی سے مان لیتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ اگر صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے 4 سال تک نگران حکومت ہی رہے گی؟ یاقومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائیگا؟چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی طور پر کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگراں حکومت چار سال تک قائم رہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ نگران حکومت صرف اسلئے آتی ہے کہ کسی جماعت کو سرکاری سپورٹ نہ ملے، کیا نگران حکومت جب تک چاہے رہ سکتی ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو آپکو سوٹ کرے وہی موقف اپنا لیں کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں کبھی کوئی، پھر کہتے ہیں کہ انتخابات ممکن ہی نہیں، ہر موڑ پر الیکشن کمیشن نیا موقف اپنا لیتا ہے، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ نو مئی کے چکر میں آپ آئین کی منشا ء کو بھول رہے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے موقف اختیار کیا میرانقطہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کرسکتے فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا جسٹس منیب اختر نےکہااگر ہم آپکی یہ دلیل مان لیں تو سپریم کورٹ رولز توعملی طور پر کالعدم ہو جائینگے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہےانتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے،چیف جسٹس نے کہا مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے نئی منتخب حکومت آسکتی ہےجسٹس اعجاز الاحسن نے کہاآئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے الیکشن کمیشن فنڈز اور سکیورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتا کیا الیکشن کمیشن بااختیار ادارہ نہیں جسٹس منیب اختر نے کہا کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ منتحب حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں ہونگےچیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہئیں ٹھوس وضاحت لینی چاہئے، کل ارکان اسمبلی کیلئے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئی ہیں الیکشن کمیشن کو بھی 21 ارب روپے ہی درکار تھے الیکشن کمیشن نے 4 لاکھ 50 ہزار سکیورٹی اہلکار مانگے ہیں ساڑھے 4 لاکھ تو کل آپریشنل فوج ہے الیکشن کمیشن کو بھی ڈیمانڈ کرتے ہوئے سوچنا چاہئے فوج کی سکیورٹی کی ضرورت ہی کیا ہے جو پولنگ سٹیشن حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ موخر ہوسکتی ہے،وکیل نے کہا اس بارے میں اپنے موکل سے ہدایت لیکر ہی آگاہ کر سکتا ہوں9 مئی کے واقعات کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا کہ اس کے بعد8اکتوبرکوانتخابات ممکن ہیں یانہیں چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 9 مئی کو غیر معمولی واقعات رونما ہوئے ہیں انکا کچھ کرنا چاہئےلیکن 9 مئی کا واقعہ انتخابات کیلئے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے،عدالتی وقت ختم ہونےپر سماعت سوموار 29 مئی تک ملتوی کر دی گئی ۔